احمد خلیل جازم
ضلع اٹک کی تحصیل فتح جنگ کے ایک قصبے کوٹ فتح خان میں قدیم مسجد موجود ہے۔ یہ تاریخی نوعیت کا ایسا نادر شاہکار ہے۔ جو بہت کم کم باصر نواز ہوتا ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کی تاریخ 1860ء بیان کی جاتی ہے۔ لیکن کوٹ فتح خان کے بزرگوں کا کہنا ہے کہ ’’یہ مسجد 1836ء کے قریب تعمیر کی گئی۔ کیونکہ ہم نے بچپن میں اس پر کندہ سن تعمیر دیکھا تھا جو اب مٹ گیا ہے‘‘۔ بہرحال یہ مسجد مغل طرز تعمیر کا خوبصورت نمونہ ہے۔ جو کوٹ فتح خان گائوں شروع ہوتے ہی دکھائی دیتی ہے۔ سفید رنگ کی یہ خوبصورت مسجد چھ میناروں اور تین گنبدوں پر مشتمل ہے۔ اس کے چار مینار سامنے اور دو مینار عقبی سمت میں تعمیر کیے گئے ہیں۔ جبکہ اس کے صحن میں سفید سنگ مرمر لگایا گیا ہے۔ مسجد کے تفصیلی ذکر سے قبل مسجد تعمیر کرنے والے کا احوال بیان کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ سردار فتح خان نے ہی کوٹ فتح خان بسایا۔ وہ اس علاقے میں ایک بڑا زمیندار تھا۔ جس نے انگریزوں کے ساتھ مل کر سکھوں کے خلاف مزاحمت کی۔ چونکہ اٹک اور کشمیر سے سکھ حملہ آور ہوتے تھے۔ اس لیے یہاں پر سردار فتح خان ان کے آگے دیوار بن جایا کرتا تھا۔ سردار فتح خان کے خاندان میں اب ملک عطا محمد کوٹ فتح خان میں اپنی پرانی تہذیب کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اگرچہ دیگر تمام ملک یہاں سے دارالحکومت شفٹ ہو چکے ہیں۔ لیکن ملک عطا محمد خان اپنے گھوڑوں کے ہمراہ آج بھی وہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔ ملک عطا محمد خان بارعب مونچھوں اور عالمی سطح پر نیزہ بازی کے حوالے سے اپنی پہچان رکھتے ہیں۔
راولپنڈی سے فتح جنگ کوہاٹ روڈ پر قصبہ جعفر کے بعد کوٹ فتح خان کو بائیں جانب ایک لنک روڈ نکلتا ہے۔ اگرچہ روڈ یک رویہ اور تنگ ہے۔ لیکن کارپٹ روڈ ہے۔ کوٹ فتح خان پہنچ کر قدیم جامع مسجد کو تلاش کرنا کچھ مشکل امر نہیں ہے۔ جیسے ہی گائوں میں داخل ہوں اس کے سفید اور خوبصورت مینار دور سے دکھائی دے جاتے ہیں۔ مین روڈ جو کہ ملک عطا محمد کے محل کی جانب جاتی ہے۔ اسی پر دائیں جانب ملک عطا محمد کے دیگر رشتہ داروں کے گھر ہیں اور انہیں گھروں کے ساتھ یہ مسجد واقع ہے۔ یہ قدیم گھر سردار فتح خان کے دور میں تعمیر کیے گئے۔ جو آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔ اگرچہ ان کے مکین (چوہدی شیر علی) اب یہاں شاذ و نادر ہی آتے ہیں۔
اس لیے ان کی دیکھ ریکھ نہیں ہو رہی۔ لیکن ملازمین خاصی تعداد میں اس گھر میں موجود ہیں۔ جیسے ہی مسجد کے بیرونی دروازے پر پہنچے تو اس دروازے نے فوری طور پر اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ اس کے بارے میں وہاں موجود مقامی شاعر اور تحقیق نگار اقبال حسین شاہ اور مسجد کے قریب رہنے والے ایک بزرگ محمد دائود نے بتایا کہ ’’یہ دروازہ دو سو برس سے اپنی اصل حالت میں موجود ہے اور کہا جاتا ہے کہ پانچ برس صرف اس دروازے کی تعمیر میں ہی صرف ہوئے تھے۔ یہ دروازہ صندل اور ساگوان کی لکڑی سے تعمیر کیا گیا ہے اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس دروازے میں موجود جو اینگل نکالے گئے ہیں۔ وہ ہنر مندوں کے ہاتھوں سے نکالے گئے ہیں اور اسی لیے اس پر اتنا زیادہ وقت صرف ہوا ہے۔ دراصل اس کے لیے جو کاریگر آیا تھا۔ اس نے فرمائش کی تھی کہ مجھے ایسی لکڑی چاہیے جس کی چوڑائی اور لمبائی برابر ہو۔ میں خود ہی اس میں سے اینگل نکالوں گا۔ چنانچہ اس نے اس دروازے پر پانچ برس صرف کیے۔ اس دروازے پر مزید بہت کچھ ڈیکوریٹ ہوا تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوگیا۔ اس کے باوجود آج بھی یہ دروازہ اپنی پرانی اور مضبوط حالت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اب اسے پشت کی سمت سے دیمک نے چاٹنا شروع کر دیا ہے۔ کیونکہ اس کی چوکھٹ کسی اور لکڑی کی بنائی گئی ہے، اس لیے اسے دیمک لگ رہا ہے‘‘۔ دروازے کی پشت سے اوپر والی سمت سے واقعی دیمک نے اپنا کام دکھانا شروع کر دیا تھا۔ اگر بروقت اس کا تدارک نہ کیا گیا تو عین ممکن ہے کہ یہ تاریخی دروازہ دیمک کی نذر ہو کر اپنا وجود کھو دے۔ کہا جاتا ہے کہ صندل کو دیمک نہیں لگتی۔ لیکن چوکھٹ کی وجہ سے دروازہ گر سکتا ہے اور اسی طرح جیسے دروازے پر دیگر اشیا زمانے کی دست برد کا شکار ہوگئیں۔ یہ دروازہ بھی معدوم جائے گا۔
حالیہ کوٹ فتح خان گائوں ایک وقت تھا ریاست کوٹ فتح خان کہلاتی تھی۔ اگرچہ اب یہ ایک چھوٹا سا گائوں دکھائی دیتا ہے۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد وطن عزیز کو پہلا وزیر دفاع اسی کوٹ فتح خان نے دیا۔ سردار محمد نواز خان 23 برس تک اپنے علاقے کی نمائندگی کرتے رہے۔ 1927ء میں انڈین لجسٹی لیٹو اسمبلی کے اس وقت رکن منتخب ہوئے جب ان کی عمر 26 برس تھی۔ بعد ازاں تحریک پاکستان میں بھی اپنی خدمات پیش کیں۔ انہیں کے بزرگ سردار فتح خان نے یہ تاریخی جامع مسجد تعمیر کرائی، جو آج بھی اسی خاندان کے زیر نگرانی ہے۔ مسجد کی خاص بات یہ ہے کہ یہ عام گھروں سے نسبتاً خاصی اونچائی پر تعمیر کی گئی ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ اس وقت سردار فتح خان کے جو گھر اور عدالت کا احاطہ موجود ہے۔ اس سے بھی یہ اونچی ہے۔ چودہ سیڑھیاں چڑھنے کے بعد ہمارے سامنے پنجاب کی ایک قدیم اور خوبصورت ترین مسجد کھڑی تھی۔ جس کے رعب حسن نے ہمیں گنگ کر دیا۔کم و بیش چار کنال پر محیط اس مسجد کی اونچائی کے بارے میں وہاں موجود مقامی بزرگ دائود اور اقبال شاہ کا کہنا تھا کہ ’’اسے اونچا تعمیر کرنے کی واحد وجہ یہ ہے کہ مسجد کو سیم یا بارش وغیرہ کا پانی خراب نہ کرسکے۔ دوسرے چونکہ خانہ خدا ہے۔ اس لیے بھی شاید اسے اونچائی پر تعمیرکیا گیا ہے‘‘۔ مسجد کے صحن سے بائیں جانب دیکھا جائے تو سردار فتح خان کا قدیم گھر موجود ہے۔ جو محل نما ہے۔ اسی محل کا مسجد سے متصل ایک بڑا احاطہ ہے۔ جو اپنے وقت میں سردار فتح خان کی عدالت کہلاتی تھی۔ یعنی مسجد کے زیر سایہ عدالت لگائی جاتی تھی۔ ا س بات سے ریاست کوٹ فتح خان کے بانی کی مذہبی عقیدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’آج بھی کوٹ فتح خان کے رئیس نماز روزے کے اس قدر پابند ہیں کہ شاید ہی علاقے بھر میں کوئی دوسرا مسلمان اس قدر پابندی کرتا ہوگا‘‘۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ قدیم مسجد اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔
مسجد کے صحن میں سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ اور سورج کی للک میں مسجد کا سفید دودھیا رنگ آنکھوں کو طراوٹ بخش رہا تھا۔ اقبال شاہ اور دائود کے ساتھ کافی دیر مسجد کے صحن میں گفتگو ہوتی رہی۔ اندر جانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔ کیونکہ زندگی میں پہلی بار ہم نے جھروکے والی مسجد دیکھی تھی۔ اس مسجد کے سامنے ماتھے پر دو خوبصورت جھروکے بنے ہوئے تھے۔ جو اس کے حسن میں بے پناہ اضافہ کر رہے تھے۔ آج باقاعدہ یہ احساس ہو رہا ہے کہ کسی کے بے پناہ حسن کی تعریف کے لیے الفاظ نہ ملنے کے معنی کیا ہوتے ہیں۔ واقعی مسجد کی خوبصورتی بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں مل رہے۔ مسجد کے تین دروازے ہیں۔ جو اندرونی سمت کھلتے ہیں۔ دائود کا کہنا تھا کہ ’’اب چوہدری شیر علی نے اسے ویدر شیٹ کرادیا ہے۔ اس لیے اس کی بیرونی شکل تبدیل ہوگئی ہے۔ لیکن اندر سے یہ اپنی اصل حالت میں موجود ہے‘‘۔ مسجد کی بیرونی شکل و صورت اور مماثلت کے حوالے سے اقبال شاہ کا کہنا ہے کہ ’’ایک مرتبہ سردار فتح خان بہاولپور گئے۔ چونکہ نوابوں کے نوابوں سے ہی تعلقات ہوتے ہیں تو بہاولپور کے نوابوں کے ہاں انہوں نے ایک مسجد دیکھی جو انہیں بہت پسند آئی۔ چنانچہ انہوں نے عین اسی مسجد کے نقشے کو سامنے رکھ کر اس مسجد کو تعمیرکرایا۔ اب بھی بہاولپور میں وہ قدیم مسجد موجود ہے۔ جسے دیکھ کر یہ مسجد تعمیر کرائی گئی۔ کوٹ فتح خان میں مسجد کی تعمیر کے لیے کاریگر اٹک سے منگوائے گئے تھے اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ترکی سے بھی آئے تھے۔ اس وقت اٹک مقامی ثقافت اور تہذیب کا ایک مرکز تھا۔ اٹک کے معمار اس وقت شاندار طرز تعمیر کے لیے مشہور تھے۔ ان کا کام ان کے جدید طرز تعمیر میں اب بھی دکھائی دیتا ہے‘‘۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’مسجد کا مین جھروکا اس مسجد کے ماتھے کا جھو مر ہے۔ جو خطۂ پوٹھوہار کی کسی اور مسجد میں نہیں ملتا۔ سوائے کلر سیداں میں موجود کھیم سنگھ بیدی کی حویلی کے۔ اٹک کے معماروں کا طرز تعمیر خطے کے دیگر معماروں کے کام کرنے کے طریقے کو بھی ظاہر کرتا تھا۔ کچھ مندر اور گردوارے جو کہ اٹک کے معماروں نے تعمیر کیے تھے۔ حضرو، مکھڈ شریف اور کوٹ فتح خان میں آج بھی موجود ہیں‘‘۔ مسجد کے سامنے دو بڑے مینار ہیں۔ جو بظاہر تو ایک جیسے ہی دکھائی دیتے ہیں لیکن بغور دیکھا جائے تو ان میں فرق محسوس ہوتا ہے۔ اگرچہ دائیں جانب والا مینار بائیں جانب والے کی شاندار کاپی کیا گیا ہے اور گمان ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس سے شکل میں الگ ہے۔ لیکن بہرحال دونوں میں فرق محسوس کیا جاسکتا ہے۔ یہ فرق کیوں ہے۔ اس کے پیچھے ایک سانحہ ہے، کہ اس اونچائی پر بنائی گئی مسجد کے دونوں میناروں میں یہ فرق کیسے در آیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭