افغان طالبان اور امریکہ میںمذاکرات کا فائنل رائونڈ شروع

محمد قاسم
افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کا فائنل رائونڈ اتوار کے روز شروع ہوگیا، جس میں افغان طالبان اور امریکی مذاکراتی وفد افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے حوالے سے حتمی بات چیت کریں گے۔ ذرائع کے مطابق امریکی مذاکراتی ٹیم کے مزید ارکان واشنگٹن سے قطر پہنچ چکے ہیں۔ جبکہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور بھارت نے مذاکرات سبوتاژ کرنے کوششیں تیز کر دی ہیں۔ ذرائع کے مطابق جمعہ سے اتوار تک امریکی حکام نے مذاکرات میں تعطل اختیار کیا، کیونکہ طالبان نے امریکی حکام سے پہلے ہی یہ طے کرلیا تھا کہ جمعہ کو طالبان مذاکرات نہیں کریں گے، کیونکہ اس روز صرف نماز جمعہ کی تیاری ہوتی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ افغان طالبان صرف دو معاملات پر امریکہ کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔ ان میں امریکی فوج کا انخلا اور افغان سرزمین مستقبل میں امریکہ کے خلاف استعمال نہ کرنے کی ضمانت شامل ہے۔ جبکہ افغان طالبان نے امریکی ٹیم کو کہا ہے کہ وہ کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ادھر افغان صدر ڈاکٹراشرف غنی نے وسط ایشیائی ممالک کے ذریعے بھی افغان طالبان کے ساتھ رابطے کئے ہیں۔ تاہم افغان طالبان نے واضح کر دیا ہے کہ اگر صدر اشرف غنی یا چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ ان سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے عہدوں سے استعفی دینا پڑے گا۔ کیونکہ وہ مسلط کردہ حکومت کے نمائندے ہیں اور طالبان موجودہ افغان حکومت کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ دوسری جانب افغان سیاستدانوں اور سابق جہادی کمانڈروں کے ساتھ طالبان رہنماؤں کے رابطے جاری ہیں اور قطر میں اس حوالے سے ایک گرینڈ جرگہ کی تیاری بھی کی جا رہی ہے جس میں حامدکرزئی کی قیادت میں افغان سیاستدان اور سابق جہادی کمانڈر شرکت کریں گے۔ مجوزہ جرگہ میں افغان حکومت بنانے سے لے کر این جی اوز کے کردار کا تعین بھی کیا جائے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ افغان طالبان شوریٰ نے پہلی بار افغان فوج اور پولیس کے حوالے سے موقف میں نظر ثانی کرنے پر رضامندی ظاہرکی ہے۔ تاہم افغان خفیہ ایجنسی کے تمام اہلکاروں کو فارغ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس پر بھارت اور امریکہ سمیت کئی ممالک کو تشویش ہے۔ کیونکہ افغان خفیہ ایجنسی میں بھارت اور امریکہ سمیت دیگر یورپی ممالک کے تربیت یافتہ لوگ موجود ہیں۔ ذرائع کے مطابق افغان طالبان متفق دکھائی دے رہے ہیں کہ افغان خفیہ ایجنسی سمیت تمام سیکورٹی ایجنسیوں اور پرائیویٹ سیکورٹی گارڈز مہیاکرنے والی تمام ایجنسیوںکو بھی ختم کر دیا جائے گا۔ افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ پولیس اور فوج کے علاوہ دیگر اداروں کو ازسر نو ترتیب دیا جائے گا۔ ادھر افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے بھارت کے ساتھ مل کر افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ افغان صدر نے بھارت کو خوش کرنے کیلئے احمد شاہ ابدالی سے لے کر محمود غزنوی تک تمام افغان حکمرانوں کو ظالم قرار دیا ہے۔ جبکہ بھارتی حکام پہلے ہی انہیں غاصب اور ڈاکو قرار دے رہے ہیں۔ کیونکہ ان افغان حکمرانوں نے ہندوستان میں اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی تھی۔ ذرائع کے مطابق بھارت کی کوشش ہے کہ مذاکرات میں اس کے مفادات کو زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے۔ افغان طالبان کے ایک مرکزی رہنما کا کہنا ہے کہ اشرف غنی کا افغانستان کے مستقبل میں کوئی رول نہیں ہوگا۔ صرف وہی افغان سیاستدان اور سابق جہادی کمانڈر، حکومت کاحصہ ہوں گے، جو افغان طالبان کے ساتھ ایک فلاحی اور اسلامی ریاست بنانے پر متفق ہیں۔ مغربی جمہوریت مسئلوں کا حل نہیں ہے۔ طالبان رہنما کے مطابق طالبان فاتحانہ انداز میں کابل میں داخل ہوںگے۔ مذکورہ رہنما نے انکشاف کیا کہ بعض علاقوں میں امریکی حکام طالبان کو حملہ نہ کرنے کے عوض پیسے بھی دے رہے ہیں۔ جبکہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے بھی لوگر میں اپنی دو سو جریب زمین کا مالیہ طالبان کو دیا ہے۔ اسی طرح طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں افیون کی کاشت پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ طالبان نے متبادل کے طور پر کاشتکاروں کو زعفران کاشت کرنے کی ہدایت دی ہے، جس کے نتائج اچھے نکل رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment