الحسن عارف
لاہور کی سبزی منڈی میں بھارتی سبزیاں اسمگل ہوکر پہنچنے کی اطلاعات کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ البتہ اکا دکا تاجروں کی طرف سے لائن آف کنٹرول کے راستے قانونی تجارت کے ذریعے آنے والی سبزیوں کی آزاد کشمیر سے باہر بھی فروخت کی کوشش کا پتہ چلا ہے۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف پیدا کردہ کشیدگی میں بتدریج کمی کے رجحان اور بھارتی مطالبات پر پاکستان کے اندر بالواسطہ عمل کے نتیجے میں پہلے مرحلے پر کنٹرول لائن پر تجارت کو کئی روز قبل ہی کھول دیا گیا تھا۔ کنٹرول لائن سے چکوٹھی اور تتری نوٹ کے راستے آنے والی اشیائے تجارت میں سے لاہور میں بھارتی ٹماٹروں اور لہسن کی فروخت کی خبریں میڈیا میں پچھلے دو تین دنوں سے سامنے آرہی تھیں۔ تاہم ’’امت‘‘ کے ذارئع کا کہنا ہے کہ لائن آف کنٹرول کے راستے دو طرفہ تجارت مکمل طور پر معمول کے معیار پر ہے۔ اس تجارت کے نتیجے میں بھارت سے آنے والی تمام اشیا ماضی میں بھی مظفر آباد سے راولپنڈی پہنچتی رہی ہیں۔ راولپنڈی پہنچنے والے تجارتی مال کے بارے میں شروع سے یہ تنازعہ چلتا رہا ہے کہ یہ اسمگلنگ کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔ ذرائع کے مطابق مظفر آباد اور تری نوٹ کے راستے آنے والے مال کا 90 فیصد راولپنڈی ہی پہنچتا رہا ہے، جس سے کسٹم حکام بھی مسلسل اپنی جیبیں بھرنے کا رجحان رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن کبھی اس بارے میں متعلقہ شعبوں نے کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں بھارت سے آیا مال فروخت کرنے کو بعض تاجر اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ واہگہ کے مقابلے میں اس راستے میں ڈیوٹی سے نجات ملی رہتی ہے۔ البتہ کسٹم اہلکارفائدے میں رہتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے راستے پاکستان کا تجارتی مال سری نگر سے دہلی تک جاتا ہے اور کہیں کوئی روک ٹوک نہیں ہو تی ہے۔
لاہور کے قدیمی علاقے بادامی باغ میں قائم سب سے بڑی اور پرانی سبزی منڈی کے تاجروں کے مطابق جب سے بھارتی سبزیوں کی لاہور میں فراہمی تعطل کا شکار ہے۔ منڈی میں تاجروں کو ٹماٹروں اور سبز مرچوں کے حوالے سے بطور خاص کئی گنا منافع مل رہا ہے۔ صرف چند ہفتوں میں ہی تاجروں کو کروڑوں کا منافع ہوا ہے۔ اس لیے سبزی منڈی سے متعلق تاجروں کی اکثریت نہیں چاہتی کہ بھارتی سبزیاں اور پھل، آنے سے مقامی تاجروں کے کاروبار پر منفی اثر پڑے اور مقامی زمینداروں کی کاشت کردہ سبزیاں کھیتوں میں ہی سڑتی رہیں۔ مقامی تاجروں کے مطابق پلوامہ حملے سے پہلے جب تک بھارتی سبزیاں لاہور کی سبزی منڈیوں تک بلا روک ٹوک پہنچ رہی تھیں تو اس وقت ٹماٹر مقامی منڈی میں پچاس روپے کلو فروخت ہو رہا تھا۔ لیکن مارکیٹ میں بھارتی ٹماٹروں کی عدم دستیابی کے باعث اب مقامی مارکیٹ میں ٹماٹر ایک سو ساٹھ روپے کلو تک فروخت ہو رہے ہیں۔ ان مقامی تاجروں نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ بھارت سے سبز مرچیں بھی آتی رہی ہیں۔ اس وجہ سے لاہور کی سبزی منڈیوں میں مرچیں تین سو سے چار سو روپے فی پانچ کلو فروخت ہو رہی تھیں۔ جبکہ بھارتی مرچوں کی آمد رکنے کے بعد اب سبزی منڈی میں مرچوں کا ریٹ تیرہ سو سے چودہ سو روپے فی پانچ کلو تک پہنچ گیا ہے۔ اگر بھارتی سبزیاں بلا روک ٹوک آرہی ہوتیں تو مقامی ٹماٹروں اور مرچوں کو اتنا اچھا ریٹ نہیں مل سکتا تھا۔ اس لیے اگر کسی نے بھارتی سبزیاں فروخت بھی کی ہیں تو یہ کسی اکا دکا تاجر نے آزاد کشمیر کے راستے پہنچنے والی سبزیوں کی یہاں لا کر فروخت کی ہوگی۔
واضح رہے کہ ماضی میں بھی لاہور کی سب سے بڑی سبزی منڈی میں مقامی تاجر لائن آف کنٹرول کے راستے مقبوضہ کشمیر سے آنے والی بھارتی سبزیوں کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ کیونکہ ان سبزیوں کے آنے سے مقامی سبزیوں کی کسان اور تاجر کو مناسب قیمت نہیں ملتی ہے۔ اپریل 2017ء میں سبزیوں کے مقامی تاجروں نے بھارتی سبزیوں کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ نیز انہیں اسمگل شدہ سبزیاں ہی قرار دیا تھا۔ دوسری جانب پنجاب حکومت کا اب بھی اس بارے میں یہ موقف ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے لائن آف کنٹرول کے ذریعے آزاد کشمیر آنے والی سبزیاں لاہور تک پہنچ جاتی ہیں کیونکہ بارٹر سسٹم کے تحت ہونے والی تجارت کے کھاتے میں آزادکشمیر کی ضروریات سے کہیں زیادہ مقدار میں تجارتی اشیا آتی ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی چوہدری اکرم نے اس بارے میں کہا کہ ’’ہم واہگہ کے راستے پاکستان کے ساتھ بھارتی تجارت کے حق میں نہیں ہیں۔ لیکن لائن آف کنٹرول کے راستے ہونے والی تجارت چونکہ بارٹر سسٹم کے تحت ہے، اس لیے اسے اس زمرے میں نہیں لیا جا سکتا ہے۔ اسی بارٹر سسٹم کے تحت پاکستان کے آلو مقبوضہ کشمیر جا رہے ہیں‘‘۔ واہگہ کے تجارتی حکام سے متعلق ذرائع کے مطابق واہگہ کے راستے بھارتی سبزیوں اور پھلوں کی پاکستان آمد ڈیڑھ دوسال پہلے سے ہی بہت کم ہو چکی ہے۔ واہگہ پر پاکستان کے اہلکاروں نے اس امر کی بالواسطہ تصدیق کر دی ہے کہ سبزیاں بھی زیادہ تر آزاد کشمیر کے راستے آتی ہیں۔ خیال رہے کہ لائن آف کنٹرول کے راستے دو طرفہ طور پر گرم مصالحہ جات کی تجارت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ جبکہ پاکستان سے تازہ پھل بھی جاتے ہیں۔ جہان تک سبزیوں اور پھلوں کی تجارت کا تعلق ہے اس میں ہر چیز کی تجارت کی اجازت ہے۔
٭٭٭٭٭