جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کی قیادت احاطہ عدالت سے دوبارہ گرفتار

مرزا عبدالقدوس
جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے امیر ڈاکٹر حمید فیاض سمیت دیگر قائدین کو ضمانت پر رہائی کے بعد احاطہ عدالت سے دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر حمید فیاض کو کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت طویل عرصے کے لئے نظر بند کر دیا جائے گا۔ دوسری جانب بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی کے بیٹے سید نسیم گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کو بھارتی تحقیقاتی ادارے (INA) نے بیرون ملک سے رقم وصول کرنے کے نام نہاد کیس میں آج (پیر کو) ایک دفعہ پھر دہلی میں طلب کر رکھا ہے۔ سید نسیم گیلانی کو اس کیس میں تیسری دفعہ دہلی میں طلب کیا گیا۔ میر واعظ عمر فاروق اور سید علی گیلانی کے بیٹے کی اس طلبی کی گزشتہ روز جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ جبکہ سری نگر کی مختلف تاجر تنظیموں نے میر واعظ عمر فاروق کی اس کیس میں ایک بار پھر آئی این اے کے ہیڈ کوارٹر دہلی میں طلبی پر احتجاجاً کاروبار بند کر دیا اور دو دن ہڑتال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ادھر مقبوضہ وادی میں جماعت اسلامی پر پابندی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے بعد رکن اسمبلی انجینئر رشید نے بھی پابندی کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کل ہندواڑہ میں ایک احتجاجی جلوس کی قیادت کی۔
بھارتی افواج نے مقبوضہ وادی میں مظلوم کشمیری عوام پر ظلم و تشدد اور بربریت کا سلسلہ بغیر کسی وقفے کے جاری رکھا ہوا ہے، جس کا جواب کشمیری اپنے عزم وہمت اور جرأت و استقامت کے ساتھ دے رہے ہیں۔ گزشتہ روز شوپیاں میں اس ظلم و ستم کے خلاف مکمل ہڑتال ہوئی اور لوگوں کی بڑی تعداد نے سڑکوں پر آ کر قابض افواج کے خلاف نعرے بازی کی۔ ذرائع نے بتایا کہ اس علاقے میں آئے روز قابض فورسز نے نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ جو نوجوان ان ظالم فورسز کو اس علاقے میں نظر آتا ہے، اس کی شناخت کی کڑے طریقے سے جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ موبائل لے کر اس کا ڈیٹا چیک کیا جاتا ہے اور پھر ان نوجوانوں کو مست پورہ نامی گائوں کے فوجی کیمپ میں حاضر ہونے اور حاضری لگوانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ حکم عدولی کی صورت میں گرفتاری اور مقدمہ درج کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ جبکہ کیمپ میں حاضر ہونے والے اکثر نوجوانوں سے الٹے سیدھے سوالات کر کے اشتعال دلا کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ شوپیاں کے علاقے کے لوگوںنے ہزاروں کی تعدا میں اس ظلم و ستم کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا اور قابض بھارتی فورسز کے خلاف فلک شگاف نعرہ بازی کر کے اپنا غصہ نکالا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی سابق اتحادی محبوبہ مفتی بھی مرکزی حکومت اور اس کی کٹھ پتلی کشمیر حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ انہوں نے گزشتہ روز اپنے پارٹی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی الیکشن جیتنے سے پہلے جنگی ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے۔ اس کی کشمیر مخالف اور دشمن پالیسی کی وجہ سے وادی کشمیر کے حالات جو پہلے ہی خراب تھے، مزید خراب ہو گئے ہیں۔ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کے بعد عوامی اتحاد پارٹی کے رکن اسمبلی انجینئر خورشید نے بھی جماعت اسلامی پر پابندی کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی اور ہندواڑہ میں ایک احتجاجی جلوس کی قیادت کی۔ جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سری نگر کی تاجر تنظیموں نے میر واعظ عمر فاروق اور سید نسیم گیلانی کی دہلی میں طلبی پر شدید غم و غصے کا اعلان کرتے ہوئے اسے کشمیری قیادت کی آواز دبانے اور ان کے خلاف دبائو کا ہتھکنڈا قرار دیا ہے۔ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں عبدالقیوم ایڈووکیٹ، انجمن جموں و کشمیر ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر حاجی یاسین ملک، سید شبیر شاہ، یاسین ملک، مسرت عالم بٹ سمیت کئی سیاست دانوں، یونیورسٹی اساتذہ اور ایک صحافی کو بھی بھارتی ایجنسی آئی این اے بیرون ملک فنڈنگ کیس میں طلب کر چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس کیس کو حق خودارادیت کا مطالبہ کرنے والوں اور کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والی شخصیات اور افراد کے خلاف بھارتی حکومت استعمال کر رہی ہے اور تحقیقات کے نام پر آئے روز کسی نہ کسی شخص کو طلب کر کے اس پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو باڈی نے گزشتہ روز اپنے ایک اجلاس کے بعد جاری بیان میں جماعت اسلامی پر پابندی، میر اعظ عمر فاروق اور سید نسیم گیلانی کی دہلی طلبی کی مذمت کی اور ان تمام اقدامات کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔ بار ایسوسی ایشن نے انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے بھی اس صورت حال کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق بھارتی قابض فورسز نے انتظامیہ کو سفارش کی ہے کہ مقبوضہ وادی میں جماعت اسلامی کے سوشل میڈیا استعمال کرنے پر بھی پابندی عائد کی جائے۔ جماعت اسلامی کی قیادت کی گرفتاری، بھاری مالیت کی املاک کی ضبطی کے بعد اب جماعت اسلامی کے سوشل میڈیا اور اس سے وابستہ افراد جن کی سائٹس اور اکائونٹس سے جماعت اسلامی سے وابستگی یا نرم گوشہ ظاہر ہو، ان سائٹس اور اکائونٹس کو بھی بند کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ تاکہ اس جماعت کے وابستگان کے تمام روابط منجمد اور بند کر دیئے جائیں۔ تحریک حریت کی تمام قیادت سے لے کر بھارتی آئین کے تحت انتخابات میں حصہ لینے والی نام نہاد کشمیری قیادت تک تمام حلقے جماعت اسلامی پر پابندی کو غیر انسانی و غیر قانونی قرار دے کر پابندی اٹھانے کا پرزور مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن بھارتی حکومت کی ظالمانہ کارروائیوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، جس کا جماعت اسلامی کی قیادت اور کشمیری قوم ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment