سرفروش

عباس ثاقب
مجھے بخوبی ادراک تھا کہ گوسوامی نے اگر میرے پاس ہتھیار کی موجودگی کی تصدیق کرلی تو میرے ہاتھ سے ’’اچانک اور غیر متوقع‘‘ والا ترپ کا ایک اہم پتا نکل جائے گا۔ کیونکہ ایسی صورت میں وہ یہ ذہن رکھتے ہوئے میرے خلاف کوئی بھی قدم اٹھائے گا کہ میرے پاس جوابی کارروائی کا مؤثر ذریعہ موجود ہے۔ اس طرح اسے مجھ پر ایک طرح کی حربی سبقت حاصل ہوجاتی۔ جس کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔
میں نے اس خطرے کے خلاف تدارکی قدم اٹھانے میں تساہل نہیں برتا۔ اس سے پہلے کہ گوسوامی کوئی اور چال بازی کرتا۔ میں نے کسمسانے کا ناٹک کیا اور پھر دھیرے دھیرے آنکھیں کھول دیں۔ وہ یقیناً میرے چہرے کا جائزہ لے رہا ہوگا۔ لہٰذا میرے ’’بیدار‘‘ ہونے سے پہلے ہی اس نے بے نیازی سے اپنی نظریں بس کی ونڈ اسکرین پر جمادیں۔
میں نے ایک انگڑائی لیتے ہوئے غنودہ سی آواز میں اسے مخاطب کیا۔ ’’ہم کہاں تک پہنچے گوسوامی بھائی؟‘‘۔
اسے اپنی کوشش ناکام رہنے پر یقیناً مایوسی ہوئی ہوگی۔ لہٰذا جب وہ بولا تو مجھے اس کے لہجے میں روکھا پن واضح طور پر محسو س ہوا۔ ’’ہم پھگواڑے کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ اب پھلور آئے گا۔ اس کے بعد ہم لدھیانے پہنچ جائیں گے۔ جہاں بس کم از کم دس منٹ رکے گی‘‘۔
میں نے جماہی لیتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا ہے یار۔ چائے کی ایک پیالی پی لیں گے۔ بہت سستی محسوس ہو رہی ہے‘‘۔
اس نے اثبات میں سر ہلانے پر اکتفا کیا اور ایک بار پھر سامنے سڑک پر نظریں جمالیں۔ اسے امید رہی ہوگی کہ میں دوبارہ سوجاؤں گا۔ لیکن میں دوبارہ ناٹک کرکے اسے پستول ٹٹولنے کا ایک اور موقع دینے کو تیار نہیں تھا۔ تاہم میں نے اسے زبردستی گفتگو پر مجبورکرنے کے بجائے اپنے آئندہ ممکنہ لائحہ عمل پر غور بہتر سمجھا۔ اس نے جالندھر میں جس طرح مجھے خاموشی سے کھسکنے کے موقع سے محروم رکھا تھا۔ اس سے ظاہر تھا کہ وہ مجھے لدھیانے میں بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دے گا۔ اور منڈی گوبند گڑھ پر اترنے کے بجائے مجھے بلاوجہ انبالے جانا پڑے گا۔ ظاہر ہے میں اسے تعاقب کر کے میرا اور میرے ساتھیوں کا ٹھکانا معلوم کرنے کا مقصد تو حاصل نہیںکرنے دوں گا۔ لیکن انبالے جانے سے نہ صرف خوا مخواہ میرا قیمتی وقت ضائع ہوگا۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ یہ شخص بھانپ لے کہ میں اس کی اصلیت اور ارادوں سے واقف ہوچکا ہوں۔ لہٰذا یہ صورتِ حال سازگار نہ پاکر وہ مجھے خفیہ پولیس کے ساتھی اہلکاروں کے ساتھ مل کر دبوچنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ ایسے میں میرے لیے جان بچاکر فرارہونا مشکل ہوجائے گا۔
خاصی سوچ بچارکے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مجھے یہ خطرہ مول لینے کے بجائے جلد از جلد اس سے پیچھا چھڑانے کا موقع تلاش کرنا چاہیے۔ چاہے اس کے لیے مجھے اسے انٹا غفیل یا ہلاک کرنا پڑے۔ لیکن مجھے احتیاط سے کام لینا پڑے گا۔ اگر یہ میری اصلیت سے واقف ہے۔ بلکہ اسے گہرا شک بھی ہے تو یہ میرے فرار کے ارادے بھانپتے ہی مجھے گولی مار دے گا۔
لیکن اس کے ساتھ ہی معاملے کا ایک اور زاویہ بھی میرے ذہن میں آیا۔ میں اس شخص سے کسی طرح جان چھڑانے میں کامیاب ہو بھی جاؤں تو مجھے ان خطرناک اور اہم سوالوں کے جوابات کیسے مل پائیں گے کہ میں ان لوگوں کی نظروں میں کیسے آیا اور یہ میرے ارادوں اور سرگرمیوں سے کس حد تک واقف ہیں؟ اگر میں یہ جوابات حاصل کیے بغیر نکل بھاگا تو عین ممکن ہے جلد یا بدیر یہ ایک بار پھر مجھے ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہوجائیں۔ اور اس بار میرے ذریعے کوئی بڑا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرنے کے بعد مجھے دیکھتے ہی گولیوں سے چھلنی کر دیں۔
میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مجھے خود اس کی زبان سے ہی ان سوالوں کے جوابات حاصل کرنے پڑیں گے۔ چاہے مجھے کوئی خطرناک راست اقدام کرنا پڑے۔ اور ایسا کرنے کے لیے میرے پاس زیادہ مہلت بھی نہیں ہے۔ بس انبالے پہنچ گئی تو میں ایک طرح سے ان کے رحم و کرم پر ہوں گا۔
بس لدھیانے پہنچ کر اڈے پر رکی تو میں باقی مسافروں کے ساتھ نیچے اتر آیا۔ ظاہر ہے میرا ’’نگران فرشتہ‘‘ بھی میرے میرے پیچھے تھا۔ اس دوران میری نظریں تیزی سے آس پاس کے ماحول کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے مقصد کے حصول کا کوئی طریقہ تلاش کر رہی تھیں۔ اس دوران میں نے کھانے پینے کے ایک ڈھابے کی طرف قدم بڑھا دیئے تھے۔ لیکن اس کے قریب پہنچتے پہنچتے میں نے بھانپ لیا کہ اس پُر ہجوم جگہ مجھے گوسوامی کی گردن دبوچ کر اس سے سچ اگلوانے کا موقع نہیں مل پائے گا۔ لہٰذا میں نے مجبوراً ایک بار پھر حاجت گاہ تلاش کرکے قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔
میںڈھابے کی طرف بڑھتے بڑھتے اچانک اڈے کی عمارتوں کے عقب کی طرف چل پڑا۔ میری اس غیر متوقع حرکت پر گوسوامی کچھ ٹھٹکا۔ میں نے اس کے پوچھنے سے پہلے ہی وضاحت کر دی۔ ’’یار ان بس اڈوں کے ٹوائلٹس کی حالت بہت خراب ہوتی ہے۔ جالندھر میں میرا جی بہت خراب ہوا تھا۔ بڑی مشکل سے الٹی روکی تھی۔ پیشاب ہی تو کرنا ہے۔ کسی بھی الگ تھلگ کونے میں کرلیں گے!‘‘۔
پتا نہیں وہ میری بات سے کتنا قائل ہوا۔ لیکن اختلاف کرنے کے بجائے وہ سر ہلاکر میرے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ کچھ ہی دیر میں ہم ایک ایسی ویران جگہ موجود تھے جہاں تین خراب بسیں اور چھوٹی بڑی گاڑیوں کے کئی ڈھانچے تھوڑے تھوڑے فاصلے سے کھڑے تھے۔ وہاں اور بھی بہت سا کاٹھ کباڑ پڑا ہوا تھا۔ لگ بھگ آدھے فرلانگ کے بعد کھیتوں کا سلسلہ دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے ایک نظر میں صورتِ حال کا جائزہ لے لیا اورسب کچھ موزوں پاکر ایک بس کے پیچھے جانے کے لیے قدم بڑھا دیئے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment