تحریک انصاف نے دوبارہ سندھ پر نظر جمالی

امت رپورٹ
پاک بھارت کشیدگی کم ہوتے ہی ملکی سیاست ایک بار پھر تنائو کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق سندھ میں تبدیلی کے لئے تحریک انصاف کی کوششوں میں جو وقفہ آیا تھا۔ اب یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہونے جا رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا حالیہ دورہ تھرپارکر (چھاچھرو) اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ ذرائع کے مطابق سندھ میں ان ہائوس تبدیلی کے حوالے سے مرکزی حکومت کی خواہش برقرار ہے۔ لیکن یہ خواہش پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ کیونکہ اب سیناریو بھی تبدیل ہو چکا ہے ۔ ذرائع کے مطابق چند ماہ پہلے جب سندھ میں تحریک انصاف نے مہم جوئی کا آغاز کیا تھا تو اسے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) اور پیپلز پارٹی کے بعض ارکان کی سپورٹ حاصل تھی۔ لیکن ان کوششوں میں بریک آجانے سے نہ صرف جی ڈی اے بلکہ تحریک انصاف سے رابطے میں رہنے والے پیپلز پارٹی کے ارکان صوبائی اسمبلی بھی مایوس ہو چکے ہیں۔ اور اس پلان کے موجدوں پر اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ان میں سے بیشتر اپنا ذہن بدل چکے ہیں۔ جبکہ جی ڈی اے بھی فی الحال اس بیکار کی مشق کا حصہ بننے کے موڈ میں نہیں۔ ذرائع کے مطابق یہی وجہ ہے کہ چھاچھرو میں وزیر اعظم عمران خان کے جلسے میں سوائے ارباب غلام رحیم کے جی ڈی اے کے کسی رکن نے شرکت نہیںکی۔ اس سارے شو کا اہتمام وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کیا تھا۔ اور اب تحریک انصاف سندھ کے دیگر اضلاع میں بھی اسی نوعیت کے شو کرانے کی تیاری کر رہی ہے۔ تاہم اس کا رزلٹ نکلتا دکھائی نہیں دے رہا۔ جی ڈی اے کے ایک اہم رکن نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ 13 مارچ کو مٹیاری میں ان کا اجلاس ہے۔ اجلاس کی صدارت پیر پگارا کریں گے اور اس میں جی ڈی اے کے ارکان پارلیمنٹ سمیت تمام ٹکٹ ہولڈر بھی شرکت کر رہے ہیں۔ تاہم جی ڈی اے رہنما کا کہنا تھا کہ اجلاس میں سندھ میں اقتدار کی تبدیلی سے متعلق پی ٹی آئی کی نئی کوششوں کا معاملہ ڈسکس نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس الائنس کی اکثریت اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اس حوالے سے پی ٹی آئی سنجیدہ نہیں۔ جی ڈی اے کی قیادت سمجھتی ہے کہ مزید خراب ہونے سے بہتر ہے کہ ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی پالیسی پر عمل کیا جائے۔
وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان کے پہلے جلسے کے حوالے سے اسلام آباد میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی جارحیت کے حوالے سے بیرونی خطرات کم ہونے کے بعد ایک بار پھر بالخصوص سندھ میں پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہونے جارہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے چھاچھرو میں جلسے کا ایک مقصد رائے عامہ ہموار کرنا بھی ہے۔ تاکہ مزید رہنمائوں کی ممکنہ گرفتاریوں پر پیپلز پارٹی سندھ کارڈ استعمال نہ کر پائے۔ واضح رہے کہ آغا سراج درانی کی گرفتاری کے بعد کرپشن الزامات کا سامنا کرنے والے متعدد پی پی رہنمائوں نے ممکنہ گرفتاری سے بچنے کے لئے عدالت کا رخ کیا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرنے والوں میں اعجاز جاکھرانی، تیمور تالپور، عبدالرزاق راجہ شامل تھے۔ جبکہ ہائیکورٹ نے سابق وزیر بلدیات جام خان شورو کے خلاف بھی نیب کو مزید تحقیقات سے روک دیا تھا، جو پہلے ہی ضمانت پر ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب کی طرف سے سندھ میں گرفتاریوں کا جو نیا سلسلہ شروع ہونے جارہا ہے، اس سے ضمانت کرانے والے رہنما تو فی الحال بچ جائیں گے۔ تاہم صوبائی وزیر سہیل انور سیال اور ضیاء لنجار کی گرفتاری کا خاصا امکان ہے۔ آصف زرداری اور فریال تالپور کے قریب تصور کئے جانے والے سہیل انور سیال تقریباً دو برس سے نیب کے ریڈار پر ہیں۔ ان کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثے بنانے کی تحقیقات جاری ہیں۔ اس معاملے سے آگاہ ایک ذریعے کا دعویٰ ہے کہ اس سلسلے میں نیب ٹھوس شواہد حاصل کرچکا ہے۔ سہیل انور سیال پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب لاڑکانہ کے لئے مختص ترقیاتی فنڈز میں گھپلے کئے۔ ذرائع کے مطابق نیب نے سابق صوبائی وزیر ضیاء الحسن لنجار کے گرد بھی گھیرا تنگ کردیا ہے۔ اور کسی بھی وقت ان کی گرفتاری متوقع ہے۔ گزشتہ ماہ سندھ ہائیکورٹ نے نیب کو ضیاء لنجار کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کا حکم دیا تھا۔ ضیاء لنجار پر کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام ہے۔ اس سلسلے میں ہائیکورٹ نے نیب کو 20 مارچ تک رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی کر رکھی ہے۔ ذرائع کے مطابق نیب میں سابق اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی گرفتاری کے حوالے سے بھی غور و خوض جاری ہے۔ ان کے خلاف نیب نے گزشتہ برس تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما پر بھی آمدنی سے زائد اثاثے بنانے کا الزام ہے۔ ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں نیب سکھر ریجن دیگر متعلقہ اداروں سے بھی خاصی تفصیلات اور ریکارڈ حاصل کرچکا ہے۔ خورشید شاہ کے صاحبزادے اور داماد بھی اس تحقیقات کا حصہ ہیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ خورشید شاہ جیسے بھاری بھرکم پی پی رہنما کے خلاف کارروائی سے قبل بلا تفریق احتساب ثابت کرنے کے لئے کرپشن الزامات کا سامنا کرنے والے پی ٹی آئی کے کسی اہم رہنما کی گرفتاری ضروری ہے۔ بصورت دیگر پی پی رہنمائوں کی ہائی پروفائل گرفتاریوں پر سندھ کارڈ کھیلا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے بقول بلا امتیاز احتساب کے بیانیہ کو مضبوط بنانے کے لئے قبل ازیں پی ٹی آئی اپنے اہم رہنما علیم خان کی قربانی دے چکی ہے۔ اس سلسلے میں دوسرا نام پرویز خٹک کا لیا جارہا ہے۔ پرویز خٹک کے خلاف گزشتہ برس ستمبر میں نیب نے انکوائری شروع کی تھی۔ ذرائع کے بقول دلچسپ امر یہ ہے کہ چیئرمین نیب جاوید اقبال کی سربراہی میں ایگزیکٹو بورڈ کے جس اجلاس میں اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے خلاف انکوائری کی اجازت دی گئی تھی۔ اسی اجلاس میں نیب ایگزیکٹو بورڈ نے سابق وزیر اعلیٰ اور موجودہ وزیر دفاع پرویز خٹک کے خلاف انکوائری شروع کرنے کی بھی اجازت دی تھی۔ آغا سراج درانی تو گرفتار ہوگئے۔ تاہم پرویز خٹک کے حوالے سے تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکا۔ پی ٹی آئی خیبر پختون کے ایک عہدیدار کے مطابق علیم خان کے مقابلے میں پرویز خٹک پر ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہیں۔ پرویز خٹک نجی محفلوں میں یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر ان پر ہاتھ ڈالا گیا تو وہ علیم خان کی طرح خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ بلکہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیں گے۔ واضح رہے کہ پرویز خٹک کو پارٹی چیئرمین اور وزیر اعظم عمران خان کے خاصے قریب تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم شنید ہے کہ ان تعلقات میں اب پہلی جیسی گرم جوشی نہیں رہی ہے۔
عہدیدار کا یہ بھی کہنا ہے کہ پرویز خٹک کی گرفتاری کی صورت میں پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت خطرے میں پڑسکتی ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ سمیت ان کی فیملی کے چار افراد قومی اسمبلی کے ارکان ہیں۔ 25 جولائی کے عام انتخابات میں پرویز خٹک کے داماد عمران خٹک نوشہرہ سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔ جبکہ پرویز خٹک کی سالی نفیسہ خٹک اور بھتیجی ساجدہ بیگم مخصوص نشستوں پر ارکان قومی اسمبلی ہیں۔ عہدیدار کے مطابق اسی طرح پرویز خٹک نے خیبر پختون سے تعلق رکھنے والے کم از کم چار سے پانچ ارکان قومی اسمبلی کو پارٹی ٹکٹ دلائے تھے۔ اور ان تمام کا شمار پرویز خٹک کے وفاداروں میں ہوتا ہے۔ یوں اپنی فیملی سمیت سابق وزیر اعلیٰ کو آٹھ سے نو ایم این ایز کی سپورٹ حاصل ہے۔ جو پرویز خٹک کی گرفتاری کا شدید ردعمل دے سکتے ہیں۔ عہدیدار کا دعویٰ تھا کہ پی ٹی آئی جو مرکز میں پہلے ہی محض چند اتحادی ارکان کی سپورٹ سے اپنی حکومت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ وہ پرویز خٹک کی قربانی دینے کا رسک نہیں لے سکتی۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment