حضرت صالح مریؒ فرماتے ہیں، ایک مرتبہ سیدنا مالک بن دینارؒ میرے پاس آئے اور فرمانے لگے: ’’کل صبح فلاں جگہ پہنچ جانا، میرے کچھ اور دوست بھی وہاں پہنچ جائیں گے، پھر ہم حضرت ابو جہیزؒ سے ملاقات کیلئے چلیں گے۔‘‘ میں نے کہا: ’’ٹھیک ہے، میں مقررہ وقت پر وہاں پہنچ جاؤں گا۔‘‘
جب میں صبح اس جگہ پہنچا جہاں کا مجھے کہا گیا تھا تو سیدنا مالک بن دینارؒ مجھ سے پہلے ہی وہاں موجود تھے اور ان کے ساتھ سیدنا محمد بن واسعؒ، حضرت ثابت بنانیؒ اور سیدنا حبیبؒ بھی موجود تھے۔ میں نے ان سب بزرگوں کو ایک ساتھ دیکھ کر دل میں کہا: ’’خدا عزوجل کی قسم! آج کا دن بہت خوش کن ہوگا۔‘‘
پھر ہم سب حضرت سیدنا ابو جہیزؒ کی طرف چل دیئے۔ سیدنا ابو جہیزؒ نے اپنے گھر میں عبادت کیلئے ایک جگہ مخصوص کر رکھی تھی۔ آپؒ بصرہ شہر میں صرف نمازِ جمعہ کیلئے تشریف لاتے اور نماز کے بعد فوراً ہی واپس تشریف لے جاتے۔
حضرت صالح مریؒ فرماتے ہیں: ’’ہم ایک انتہائی خوبصورت جگہ سے گزرے تو سیدنا مالک بن دینارؒ نے فرمایا: ’’اے ثابت! اس جگہ نماز پڑھ لو، کل بر وزِ قیامت یہ جگہ تمہاری گواہی دے گی۔‘‘ پھر ہم سیدنا ابو جہیزؒ کے گھر پہنچے اور ان کے متعلق پوچھا تو پتا چلا کہ وہ نماز پڑھنے گئے ہیں، ہم ان کا انتظار کرنے لگے، کچھ ہی دیر بعد حضرت ابو جہیزؒ تشریف لائے، آپؒ نہایت غمزدہ، پر یشان حال اور بہت کمزور تھے، ایسا لگتاتھا جیسے ابھی قبر سے نکل کر آرہے ہوں۔ پھر انہوں نے مختصر سی نماز پڑھی اور نہایت غمگین حالت میں ایک جگہ بیٹھ گئے۔
ان سے مصافحہ کرنے کیلئے سب سے پہلے سیدنا محمد بن واسعؒ گئے اور انہوں نے سلام کیا، آپؒ نے جواب دیا اور پوچھا: ’’تم کون ہو؟ میں تمہاری آواز نہیں پہچان پایا۔‘‘ سیدنا محمد بن واسعؒ نے عرض کی: ’’میں بصرہ سے آیا ہوں۔‘‘ پوچھا: ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ آپؒ نے جواب دیا: ’’میرا نام محمد بن واسع ہے۔‘‘ یہ سن کر فرمانے لگے: ’’مرحبا، مرحبا! کیا تم ہی محمد بن واسع ہو جن کے متعلق بصرہ والے یہ کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ فضیلت والے یہی ہیں، خوش آمدید بیٹھ جائیے۔‘‘ پھر حضرت ثابت بنانیؒ نے سلام کیا، ان سے بھی نام پوچھا تو انہوں نے بتایا: ’’میرانام ثابت بنانی ہے۔‘‘ یہ سن کر فرمانے لگے: ’’مرحبا، اے ثابت! کیا تمہارے ہی متعلق لوگوں میں مشہور ہے کہ سب سے زیادہ لمبی نماز پڑھنے والے ثابت بنانی ہیں، خوش آمدید! آپؒ تشریف رکھیں۔‘‘
پھر حضرت حبیبؒ سلام کیلئے حاضر ہوئے۔ ان سے پوچھا: ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ عرض کی: ’’حبیب۔‘‘ فرمایا: ’’کیا تم ہی وہ حبیب ہو جن کے متعلق مشہور ہے کہ خدا عزوجل کے سوا کبھی کسی سے کوئی سوال نہیں کرتے، خوش آمدید! تشریف رکھئے۔‘‘ پھر سیدنا مالک بن دینارؒ نے سلام کیا اور جب اپنا نام بتایا تو فرمایا: ’’مرحبا! مرحبا! اے مالک بن دینار! تمہارے ہی متعلق مشہور ہے کہ تم سب سے زیادہ مجاہدہ کرنے والے ہو۔‘‘ پھر انہیں بھی اپنے پاس بٹھا لیا۔
پھر میں سلام کیلئے حاضر ہوا۔ جب میرا نام پوچھا تو میں نے اپنا نام بتایا، فرمانے لگے: ’’اچھا! تمہارے ہی متعلق مشہور ہے کہ تم قرآن بہت اچھا پڑھتے ہو، میری بڑی خواہش تھی کہ تم سے قرآن سنوں، آج مجھے قرآن سناؤ۔‘‘ حکم ملتے ہی میں نے تلاوت شروع کردی۔ خدا عزوجل کی قسم! ابھی میں تعوذ بھی مکمل نہ کر پایا تھا کہ وہ بے ہوش ہو گئے۔ جب افاقہ ہوا تو فرمانے لگے: ’’اے صالح! مجھے قرآن سناؤ۔‘‘ چنانچہ میں نے قرآن پاک کی الفرقان کی آیت نمبر 23 تلاوت کی۔
جیسے ہی انہوں نے یہ آیت سنی، ایک چیخ ماری اور پھر ان کے گلے سے عجیب وغریب آواز آنے لگی اور تڑپنے لگے، پھر یکدم ساکت ہوگئے۔ ہم ان کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ ان کی روح قفس عنصری سے پر واز کر چکی تھی، ہم نے لوگوں سے پوچھا : ’’کیا ان کے گھر والوں میں سے کوئی موجود ہے؟‘‘ لوگو ں نے بتایا: ’’ایک بوڑھی عورت ان کی خدمت کرتی ہے۔‘‘ جب اس بوڑھی عورت کو بلایا گیا تو اس نے پوچھا: ’’کس طرح ان کا انتقال ہوا؟‘‘ ہم نے بتایا: ’’ان کے سامنے قرآن کی ایک آیت پڑھی گئی، جسے سنتے ہی ان کی روح پرواز کر گئی۔‘‘
اس عورت نے پوچھا: ’’تلاوت کس نے کی تھی؟ شاید! صالح قاری نے تلاوت کی ہو گی۔‘‘ ہم نے کہا: ’’جی ہاں! تلاوت تو صالحؒ ہی نے کی ہے، لیکن تم انہیں کس طر ح جانتی ہو؟‘‘ کہنے لگی: ’’میں انہیں جانتی تو نہیں، مگر سیدنا ابو جہیزؒ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اگر میرے سامنے حضرت صالح قاریؒ نے تلاوت کی تو میں ان کی تلاوت سنتے ہی مر جاؤں گا۔‘‘
پھر اس عورت نے کہا: ’’خدا عزوجل کی قسم! حضرت صالحؒ (کی پردرد آواز) نے ہمارے حبیب کو قتل کر ڈالا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ عورت رونے لگی۔ پھرہم سب نے مل کر حضرت سیدنا ابو جہیزؒ کی تجہیز و تکفین کی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭