تثلیث سے توحید تک

محترمہ خدیجہ کا تعلق آسٹریلیا سے ہے۔ انہوں نے جولائی 1980ء میں منصورہ لاہور میں میاں طفیل محمد قائد تحریک اسلامی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ وہ دو ماہ کے بعد واپس آسٹریلیا چلی گئیں اور اگست1981ء میں دوبارہ پاکستان آئیں اور یہیں 29 ستمبر کو وفات پا گئیں۔ اپنے قبول اسلام کے متعلق ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا…
سوال: براہ کرم سب سے پہلے اپنا تفصیلی تعارف کرا دیجئے۔
جواب: اسلام قبول کرنے سے پہلے میرا نام مس مارلینا گارسیا تھا۔ میرا آبائی وطن برازیل تھا، مگر میرے والد ڈاکٹر آرتھر ایڈورڈگارسیا جو ایک ماہر معالج تھے، برطانوی فوج کی میڈیکل کور میں اعلیٰ افسر تھے اور برما میں تعینات تھے، وہیں میں 1929ء میں پیدا ہوئی۔ میٹرک تک تعلیم رنگون میں حاصل کی۔ پھر والد صاحب نے ملازمت سے ریٹائرمنٹ لے لی اور کیلی فورنیا (امریکی) میں رہائش اختیار کرلی۔ وہاں انہوں نے پرائیویٹ پریکٹس شروع کردی، جو بڑی کامیابی سے چلنے لگی، مگر افسوس کہ جلد ہی انہیں موت کی طرف سے بلاوا آگیا۔ اس وقت میری عمر اٹھارہ انیس برس کی تھی۔ والدہ اس صدمے سے جانبر نہ ہو سکیں اور وہ تین سال کے اندر اندر وہ بھی وفات پا گئیں۔
میں دنیا میں یک و تنہا رہ گئی، میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی، بہن بھائی کوئی نہ تھا۔ تاہم میں نے ہمت نہ ہاری، میں ہمیشہ سے ایک اچھی اسٹوڈنٹ تھی۔ والدہ مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتی تھی، چنانچہ میں نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور یونیورسٹی آف میڈیسن کیلی فورنیا سے گریجویشن کرلی۔ لکھنے پڑھنے کا شوق بھی تھا۔ اس لئے مختلف اخبارات میں وقائع نگاری اور مضمون نویسی کا سلسلہ بھی شروع کر دیا اور پرائیویٹ پریکٹس کے ساتھ ساتھ شراب، تمباکو نوشی اور دیگر منشیات کے خلاف لیکچر بھی دینے لگی۔ ان لیکچروں کے سلسلے میں مجھے امریکہ اور یورپ کے بہت سے ملکوں میں جانے کا اتفاق ہوا، میں نے دنیا بھر کی سیاحت کی۔ حتیٰ کہ بالآخر میں نے آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔ وہیں کلینک بنا لیا اور فری لانسر صحافی کا مشغلہ بھی جاری رہا۔ اس سے مجھے اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی تھی۔
سوال: اسلام سے آپ کب اور کیسے متعارف ہوئیں؟
جواب: میرا آبائی مذہب عیسائیت ہے۔ میں کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتی تھی، مگر سچی بات ہے کہ اس مذہب نے مجھے کبھی متاثر نہ کیا۔ ذہن میں طرح طرح کے سوالات پیدا ہوتے تھے اور میں پادریوں اور دیگر متعلقہ لوگوں سے بحث کرتی تھی، مگر کہیں سے کوئی تسلی بخش جواب نہ ملتا تھا۔ مثال کے طور پر تثلیث کا عقیدہ اتنا مہمل اور مضحکہ خیز ہے کہ کوئی باہوش انسان اسے قبول نہیں کر سکتا۔
اس کے ساتھ یہ بھی بتاتی چلوں کہ میرے ضمیر نے مجھے شراب نوشی اور عیش پرستی سے دور رکھا ہے۔ میں نے کبھی گوشت نہیں کھایا، کافی تک نہیں پی۔ سبزیوں اور پھلوں کے جوس پر گزارہ کرتی رہی ہوں۔ میرا وجدان کہتا تھا کہ جو انداز یورپ نے اختیار کر رکھا ہے، یہ خلاف فطرت ہے۔
چنانچہ تلاش حق کی خاطر میں نے دیگر مذاہب کا مطالعہ شروع کیا، مثلاً جوڈازیم، کنفیوشرم اور ہندومت، مگر کسی سے بھی میری تسکین نہ ہوئی۔ اس ضمن میں، میں نے اسلام کے بارے میں بھی کچھ کتابوں کا مطالعہ کیا، اس کے اچھے اصولوں سے میں متاثر تو ہوئی، مگر تصور واضح نہ ہوئی۔ شاید اس لئے کہ ان کتابوں کے مصنف یورپ کے متعصب عیسائی تھے۔ اس لئے میں اپنے دل میں اسلام کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے کے باوجود اس سے دور رہی، اسی حالت میں ایک عرصہ گزر گیا۔
یہ میری خوش نصیبی ہے کہ میں نے محترمہ مریم جمیلہ کی کتب کا مطالعہ کیا اور پھر جب1960ء کے لگ بھگ صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ میں پاکستان آئی اور مریم جمیلہ سے ملی، تو میں ان کی سادگی اور شخصیت سے بہت متاثر ہوئی۔ انہوں نے ایک ایسے شخص سے شادی کی، جو پہلے ہی شادی شدہ تھا اور ان کے بچے بھی تھے۔ وہ اپنی ضعیف العمر ساس کی خوب خدمت کرتیں اور خاموشی اور وقار سے خدمت دین میں مصروف رہتیں۔ مریم جمیلہ نے مجھے مولانا مودودیؒ سے بھی متعارف کرایا اور ان کی ایک کتاب ’’ٹووارڈز انڈر اسٹینڈنگ اسلام‘‘ پڑھنے کو دی۔ اس کتاب سے مجھے اسلام کا بھرپور تعارف حاصل ہوا۔ میں نے اندازہ کر لیا کہ اسلام ایک وسیع اور فطری مذہب ہے۔ توحید کائنات کی سب سے بڑی سچائی ہے اور نظر آنے والی ہر چیز خدا کی واحدنیت پر شاہد ہے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment