سلطان غزنوی ؒ اور 6 چور

مولانا رومیؒ نے سلطان غزنویؒ کا ایک عجیب واقعہ لکھا ہے، جو بڑا عبرت خیز و سبق آموز ہے۔ وہ یہ کہ سلطان محمود غزنویؒ کے زمانے میں چوروں کا کچھ زور ہو گیا تھا۔ بادشاہ اس کی وجہ سے پریشان ہوا اور چوروں کو پکڑنے کے لئے ایک عجیب تدبیر نکالی کہ شاہی لباس اتار کر چوروں کا سا لباس پہن لیا اور شہر میں گشت کرنے لگا۔ ایک جگہ پر دیکھا کہ بہت سے چور اکٹھے بیٹھے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے ہیں۔ بادشاہ بھی ان میں بیٹھ گیا۔ چوروں نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ بادشاہ نے کہا میں بھی تم جیسا ہوں۔ چوروں نے سمجھا کہ یہ بھی کوئی چور ہے، انہوں نے کہا تم کوئی اپنا ہنر بتاؤ، اگر تمہارے اندر کوئی ہنر ہو گا تو تم کو اپنے ساتھ شریک کر لیں گے، ورنہ نہیں۔
بادشاہ نے کہا: پہلے آپ لوگ اپنا اپنا ہنر بتاؤ، پھر میں بھی اپنا ہنر بتاؤں گا۔ ایک چور نے کہا کہ میں اونچی سے اونچی دیوار پھاند کر مکان میں داخل ہو جاتا ہوں، اگرچہ بادشاہ کا قلعہ ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرے نے کہا میری ناک کی یہ خاصیت ہے کہ میں کسی جگہ کی مٹی سونگھ کر بتا دیتا ہوں کہ یہاں خزانہ ہے یا نہیں۔ تیسرے چور نے کہا میرے بازو میں اتنی طاقت ہے کہ میں گھر میں گھسنے کے لئے اس میں سوراخ کر سکتا ہوں۔ چوتھے چور نے کہا میں ماہر حساب ہوں، کتنا بڑا خزانہ کیوں نہ ہو، چند لمحوں میں حساب لگا کر تقسیم کر دیتا ہوں۔ پانچویں چور نے کہا میرے کانوں میں ایسی خاصیت ہے کہ میں کتے کی آواز سن کر بتا دیتا ہوں کہ کتا کیا کہہ رہا ہے۔ چھٹے چور نے کہا میری آنکھ میں یہ خاصیت ہے کہ جس چیز کو رات میں دیکھ لیتا ہوں، دن میں اس کو پہچان لیتا ہوں۔
اب بادشاہ نے کہا کہ میری داڑھی میں یہ خاصیت ہے کہ جب مجرمین کو پھانسی کے پھندے کے حوالے کیا جاتا ہے، اس وقت اگر میری داڑھی ہل جاتی ہے تو مجرمین پھانسی کے پھندے سے بچ جاتے ہیں۔ چونکہ وہ بادشاہ تھا تو اس نے ایک خاص لطیف انداز سے اپنا ہنر اور کمال بیان کیا۔ سارے چور یہ بات سن کر خوش ہو گئے اور کہنے لگے کہ آپ تو چوروں کے ’’قطب‘‘ ہیں، جب ہم کسی مصیبت میں پھنس جائیں گے تو آپ ہی کے ذریعے ہم کو خلاصی مل سکتی ہے۔
پھر سب نے مشورہ کیا اور طے کیا کہ آج بادشاہ کے یہاں چوری کی جائے، اس لئے کہ آج مصیبت سے چھڑانے کے لئے داڑھی والا موجود ہے۔ لہٰذا سب کے سب بادشاہ کے محل کی طرف چل پڑے۔ راستہ میں کتا بھونکا تو کتے کی آواز پہچاننے والے نے کہا کہ کتا کہہ رہا ہے کہ بادشاہ تمہارے ساتھ ہے، لیکن چور پھر بھی چوری کے ارادے سے باز نہ آئے اور بادشاہ کے یہاں چوری کر ڈالی اور خزانہ لوٹ کر جنگل کی طرف آئے، وہاں بیٹھ کر ماہر حساب نے حساب لگا کر چند منٹوں میں سب کو تقسیم کر دیا۔
بادشاہ نے کہا: سب لوگ اپنا پتہ لکھوا دو، تاکہ آئندہ چوری کرنا ہو تو ہم سب لوگ آسانی سے جمع ہو سکیں۔ سب کا پتہ نوٹ کر لیا گیا اور سب نے اپنا اپنا راستہ لیا۔ اگلے دن بادشاہ نے عدالت لگوائی اور پولیس کو حکم دیا کہ سب کو پکڑ کر لاؤ۔ جب سب چور ہتھکڑیاں ڈال کر حاضر کئے گئے۔ بادشاہ نے سب کو پھانسی کا حکم دے دیا اور کہا کہ اس مقدمہ میں کسی گواہ کی ضرورت نہیں، کیوں کہ سلطان خود وہاں موجود تھا۔
جب چھ کے چھ پھانسی کے تختے پر کھڑے ہو گئے تو وہ چور جو آنکھوں کی خاصیت والا تھا، اس نے بادشاہ کو پہچان لیا کہ یہ وہی شخص ہے، جو رات ہمارے ساتھ تھا۔ وہ تختہ دار سے چلایا کہ حضور! کچھ دیر کے لئے امان دی جائے اور آپ سے تنہائی کا موقعہ دیا جائے۔ بادشاہ نے کہا ٹھیک ہے، تھوڑی دیر کے لئے پھانسی موقوف کر دو اور اس کو میرے پاس بھیج دو۔ اس نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ ہر ایک نے اپنی خاصیت بتا دی، ہر ایک نے اپنا ہنر بتا دیا، ہمارے وہ ہنر جن پر ہم کو ناز تھا، انہوں نے ہماری بدبختی کو اور بڑھایا کہ آج ہم تختہ دار پر ہیں۔ اے بادشاہ! میں نے آپ کو پہچان لیا ہے کہ آپ نے وعدہ فرمایا تھا، جب مجرموں کو تختہ دار پر چڑھایا جاتا ہے، اگر اس وقت میری داڑھی ہل جاتی ہے تو مجرمین پھانسی سے نجات پا جاتے ہیں۔ لہٰذا آپ اپنا ہنر ظاہر فرمائیں تاکہ ہماری جان خلاصی پائے۔
سلطان محمود نے کہا: تمہارے ہنروں نے تو تمہیں مبتلائے قہر کر دیا ہے، لیکن یہ شخص جو سلطان کا عارف تھا، اس کی چشم سلطان شناس کے طفیل میں تم سب کو رہا کیا جاتا ہے۔
اس عجیب و غریب قصّہ کو بیان کر کے مولانا رومؒ کہتے ہیں کہ:
دنیا میں ہر شخص اپنے ہنر پر ناز کر رہا ہے۔ بڑے بڑے اہل ہنر اپنی بدمستیوں میں مست اور خدا سے غافل ہیں۔ لیکن کل قیامت کے دن ان کے یہ ہنر کچھ کام نہیں آئیں گے، بلکہ یہی دنیوی ہنر ان کو مبتلائے قہر و عذاب کر دیں گے، اور اس کے برخلاف جن لوگوں نے اس دنیا کے اندھرے میں اپنے حقیقی بادشاہ خدا عزوجل کو پہچان لیا اور اس کی معرفت اپنے دلوں میں پیدا کر لی، قیامت کے دن یہ خود بھی نجات پائیں گے اور اس کی سفارش گناہ گاروں کے حق میں قبول کی جائے گی۔
یاد رکھو! جس نے دنیا کے اندھیرے میں خدا کو پہچاننے کا ہنر سیکھ لیا تو پھر دوسرے ہنر سیکھنا کچھ مضر نہیں۔ کیوں کہ پھر کوئی بھی ہنر آپ کو رب سے غافل نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹر، انجینئر بننا منع نہیں، بشرطیکہ آپ رب سے غافل نہ ہوں۔ اس حکایت سے معلوم ہوا کہ چشمِ سلطان شناس ہی کام آتی ہے، باقی ہنر تختہ دار پر لے گئے، اسی طریقہ پر دنیا کے تمام کاروبار جو رب سے غافل ہو کر کئے جاتے ہیں، وہ آخر کار انسان کو تباہی و بربادی میں ڈال دیتے ہیں۔ لیکن جب کوئی شخص رب کی معرفت کا نور حاصل کر لیتا ہے اور وہ رب سے غافل ہونے کے بجائے عاقل بن جاتا ہے، تو وہ شخص خود بھی نجات پاتا ہے اور دوسروں کو بھی نجات دلانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس لئے سب سے بڑی چیز رب عزوجل کی معرفت ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment