محمد قاسم
قطر میں افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے اختتام پر طے پانے والے معاہدے کا مسودہ افغان طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ اور طالبان کے فیلڈ کمانڈرز کو پہنچا دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق شمالی اور جنوبی افغانستان کیلئے ملٹری کمانڈر مولوی یعقوب اور وسطی و مشرقی افغانستان کیلئے ملٹری کمانڈر و نائب امیر سراج الدین حقانی کو معاہدے کا مسودہ دیا گیا ہے۔ آئندہ چند روز میں رہبری شوریٰ معاہدے پر بحث کے بعد اس کی منظوری دے گی۔ جبکہ 25 مارچ کے بعد امریکی حکام سے ہونے والے مذاکرات میں ملا برادر اور افغان طالبان کے مذاکراتی ٹیم کے ارکان شیر محمد عباس، ملا ضیا الرحمان، عبدالسلام حنفی، شہاب الدین دلاور، ملاعبداللطیف منصور، ملاعبدالمنان عمری، مولوی امیر خان متقی، ملا محمد فاضل مظلوم، ملا خیراللہ، مولوی مطیع الحق، ملا محمد انس حقانی، ملا نور اللہ، مولوی محمد نبی عمری اور مولوی عبدالحق وثیق معاہدے پر دستخط کریں گے۔ جبکہ امریکہ کی جانب سے زلمے خلیل زاد اور افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ اسکاٹ ملر معاہدے پر دستخط کریں گے۔ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان قطر میں سولہ دن جاری رہنے والے مذاکرات منگل کی شب اختتام پذیر ہوئے۔ چھ مارچ کے بعد یہ مذاکرات قطر کے فائیو اسٹار ہوٹل الشرق میں ہوئے۔ میڈیا نمائندے افغان طالبان کے دفتر کے چکر لگاتے رہے۔ جبکہ زلمے خلیل زاد اور عبدالغنی برادر سمیت امریکہ اور طالبان کے اعلیٰ عہدیدار الشرق ہوٹل میں موجود تھے۔ مذاکرات میں شریک طالبان کے ایک رہنما کے مطابق بات چیت کے دوران بہت نشیب و فراز آئے۔ تاہم طالبان نے جنگ ختم کرنے کیلئے نہ صرف طویل مذاکرات میں صبر و حوصلہ مندی کا ثبوت دیا بلکہ پرانے زخموں کو بھلانے کی بھی بات کی۔ طالبان نے امریکہ سے دہشت گردی کی وسیع تعریف کرنے کی بات بھی منوالی ہے۔ کیونکہ طالبان اپنے اوپر دہشت گردی کا الزام قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ امریکی حکام کو کہا گیا کہ اگر دہشت گردی کی صحیح تعریف نہیں کی گئی تو دنیا بھر میں لوگ اپنے ملک میں غاصب حکمرانوں اور دوسرے ممالک کے قبضے میں رہنے والے لوگ جدوجہد نہیں کر سکیں گے، کیونکہ غاصب حکمران انہیں دہشت گردی کے الزامات لگاکر دباتے رہیں گے۔ طالبان کا موقف تھا کہ جو لوگ اپنے نظریات کسی پر مسلط نہیں کرتے اور نہ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں، اگر ان سے یہ حق چھین لیا گیا تو پھر ڈکٹیٹر اور دنیا کے ہر خطے میں قابض لوگ عوام کو دہشت گردی کے نام پر دباتے رہیں گے اور جمہوری قوتیں ان کی حمایت نہیں کر پائیں گی۔ جس پر امریکی حکام نے رضامندی ظاہر کردی۔ طالبان رہنما کے مطابق افغان طالبان نے امریکی حکام سے القاعدہ اور داعش کے حوالے سے بھی بات کی اور انہیں تفصیل سے آگاہ کیا کہ جب تک فلسطین کا مسئلہ حل نہیں کیا جاتا، اس وقت تک القاعدہ جیسی تنظیمیں وجود میں آتی رہیں گی۔ طالبان وفد نے اسلامی تحریکوں کے حوالے سے امریکی مذاکراتی وفد کو باور کرایا کہ جو تحریکیں صرف اپنے ممالک میں جمہوری انداز سے عوامی ووٹوں کے ذریعے حکومت میں آنا چاہتی ہیں، ان کو دبانے میں امریکہ جس طرح کا کردار ادا کررہا ہے، اس پر طالبان امریکہ کے خلاف ان کی کارروائیوں کو نہیں رکوا سکتے۔ مذاکرات میں شامل رہنما کے مطابق طالبان نے امریکی فوج، سی آئی اے اور ایف بی آئی کے اہلکاروں سے یہ بھی دریافت کیا کہ گیارہ ستمبر 2001ء کے واقعات میں اگر کوئی افغان ملوث ہے تو اس کے ثبوت فراہم کئے جائیں۔ تاہم امریکی حکام نے کہا کہ ان واقعات میں کوئی افغان ملوث نہیں تھا۔ طالب رہنما کے بقول طالبان نے امریکہ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ کیوبا کے قید خانے میں طالبان قیدیوں پر تشدد، ڈرون حملوں اور اپنے رہنمائوں کی ہلاکتوں کے حوالے سے وہ قانونی چارہ جوئی نہیں کریں گے۔ تاہم امریکہ کو دہشت گردی کی نئی تعریف کو معاہدے کا حصہ بنانا ہوگا۔ سولہ روز تک جاری رہنے والے مذاکرات میں دونوں فریق چار میں سے دو نکات پر سمجھوتے پر پہنچ گئے ہیں۔ معاہدے پر دستخط کے بعد مزید دو نکات پر مذاکرات ہوں گے۔ ذرائع کے مطابقق طالبان کی جانب سے چھ مارچ سے انس حقانی اور ملا عبدالمنان نے بھی مذاکرات میں شرکت کی۔ انس حقانی کو امریکی جیٹ طیارے میں دوحہ پہنچایا گیا۔ افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ سات روز تک نو نوگھنٹے مذاکرات میں شریک رہے، جس سے کئی امور پر پیشرفت ممکن ہوئی۔ واضح رہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان چار نکات پر مذاکرات ہوئے، جس میں سے امریکی فوج کے انخلا، افغان سرزمین امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہ کرنے کی ضمانت اور ’’دہشت گردکون‘‘ پر اتفاق رائے ہوگیا ہے۔ جبکہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات اور مستقل جنگ بندی کے حوالے سے ابتدائی بات چیت مکمل ہوگئی ہے اور مارچ کے آخری ہفتے میں معاہدے پر دستخط کے بعد آخری دو نکات پر بات چیت کی جائے گی۔ مذاکرات میں شریک ایک طالبان رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دوحہ سے رات گئے بتایاکہ مذاکرات میں تعطل اس لئے آیا تھاکہ ان کی مذاکراتی ٹیم کے دو ارکان کو تاخیر سے دوحہ بھیجا گیا۔ چھ مارچ کو امریکی فوج کے ایک جیٹ طیارے سے ملا عمر کے بھائی ملا عبدالمنان عمری کو پہنچایا گیا۔ کیونکہ طالبان کے ملٹری کمانڈر ملا یعقوب کی خواہش تھی کہ ان کے خاندان کا کوئی فرد بھی مذاکرات میں شامل ہو۔ اسی طرح حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کے بھائی انس حقانی کو بھی دوحہ پہنچایا گیا، لیکن اس کا اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ منگل کی رات طالبان کی جانب سے جاری کردہ لسٹ میں انس حقانی کا نام مذاکراتی ٹیم میں شامل تھا۔ طالبان رہنما کے مطابق طالبان اور امریکہ کے درمیان امریکی فوج کے انخلا کی تاریخ پر اختلاف ہے، جس کیلئے امریکی حکام نے وقت مانگ لیاہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق دہشت گردی کی جو تعریف کی گئی اور جس پر دونوں فریق متفق ہوگئے ہیں، اس سے سب سے زیادہ نقصان بھارت کو ہوگا اور کشمیریوںکو اس سے فائدہ ہوگا۔ طے شدہ مسودے میں کہا گیا ہے کہ جو قوم صرف اپنی آزادی کیلئے اپنے محدود علاقے میں جدوجہدکرتی ہیں اور ان کے دیگر ممالک کے خلاف کوئی عزائم نہ ہوں، تو ان کی جدوجہد دہشت گردی کے زمرے میںنہیں آئے گی۔ ذرائع کے مطابق انگریزی، پشتو اور دری زبانوں میں تحریر کئے گئے معاہدے کا مسودہ طالبان امیر اور امریکی حکام کے حوالے کردیا گیا ہے۔ طالبان کی رہبری شوریٰ اس پر بحث کے بعد منظوری دے گی، جس کے بعد مذاکرات کے اگلے دور میں طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے ارکان اس پر دستخط کریں گے۔
٭٭٭٭٭