جب غیرت زندہ تھی!

علامہ ابن جوزیؒ نے اسلامی غیرت و حمیت کا ایک عجیب واقعہ نقل کیاہے کہ ایک خاتون مکمل پردے کے عالم میں قاضی کے سامنے کھڑی تھی۔ اس نے اپنے شوہر کے خلاف مقدمہ دائر کر رکھا تھا۔ مقدمہ کی نوعیت بڑی عجیب تھی کہ میرے خاوند کے ذمہ مہر کی رقم 500 دینار واجب الاداء ہے اور وہ ادا نہیں کر رہا، لہٰذا مجھے مہر کی رقم دلوائی جائے۔
قاضی نے خاوند سے پوچھا تو اس نے اس دعویٰ کا انکار کیا کہ اس کے ذمہ عورت کی کوئی رقم ہے۔ عدالت نے گواہ طلب کئے۔
خاتون نے چند گواہوں کو پیش کیا۔ گواہوں نے کہا کہ ہم اس خاتون کا چہرہ دیکھ کر ہی بتاسکتے ہیں کہ واقعی یہ وہی عورت ہے جس کی گواہی کیلئے ہم یہاں آئے ہیں لہٰذا عورت سے کہا جائے کہ اپنے چہرے سے پردہ ہٹائے تاکہ ہم اس کی شناخت کرسکیں۔
عدالت نے حکم دیا کہ عورت گواہوں کے سامنے چہرہ سے نقاب ہٹائے تاکہ وہ شناخت کرسکیں۔ یہ عمل شرعاً جائز بھی ہے۔ ادھر عورت تذبذب کا شکار تھی کہ گواہوں کے سامنے نقاب اتارے یا نہ اتارے۔ گواہ اپنے موقف پر مصر تھے۔ اچانک اس کے خاوند نے غیرت میں آکر کہا: ’’مجھے قطعاً یہ گوارا نہیں کہ کوئی نامحرم شخص میری بیوی کا چہرہ دیکھے، لہٰذا گواہوں کو اس کا چہرہ دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کا مہر واقعی میرے ذمے ہے۔‘‘
عدالت ابھی فیصلہ دینے ہی والی تھی کہ وہ عورت بھی بول اٹھی:
’’محترم! اگر میرا شوہر کسی کو میرا چہرہ دکھلانا برداشت نہیں کرتا تو میں بھی اس کی توہین برداشت نہیں کرسکتی، لہٰذا مقدمے کو خارج کردیں۔ میں نے اس کو اپنا مہر معاف کردیا۔ میں غلطی پر تھی، جو ایسے شخص کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔‘‘
(یہ واقعہ ابن جوزی کی معروف کتاب ’’المنتظم فی تاریخ الامم والملوک‘‘ 403/12 میں دیکھا جاسکتا ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment