حضرت جنید بغدادیؒ کے نافرمان مرید کے ساتھ شیاطین کھیلنے لگے۔ وہ روزانہ خواب میں فرشتوں کی صورت میں اس کے سامنے ظاہر ہوتے اور اسے ’’جنت‘‘ کی سیر کراتے، عمدہ کھانوں سے اس کی تواضع کرتے۔ پھر وہ رات بھر ’’جنت‘‘ میں رہتا اور صبح کے وقت ’’فرشتے‘‘ اسے اس کے گھر چھوڑ جاتے۔ بعض سادہ لوح افراد اس کے قریب جمع ہوگئے تھے اور وہ ان معصوم و بے خبر لوگوں کو جنت کی سیر کے افسانے سناتا تھا۔ آخر یہ خبر حضرت جنید بغدادیؒ تک بھی پہنچی، جسے سن کر آپؒ کے چہرئہ مبارک پر اذیت و کرب کے آثار نمایاں ہوگئے۔ پھر آپؒ نے اپنے ایک خدمت گار سے فرمایا: ’’اسے میرے پاس لے آؤ۔ خدا اس کے حال پر رحم کرے۔‘‘
جب جنید بغدادیؒ کے خادم نے اسے پیرو مرشد کا پیغام دیا تو وہ پرغرور لہجے میں کہنے لگا: ’’میں خود پیر کامل ہوں۔ مجھے کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ جسے آنا ہو وہ خود چلا آئے۔ میں اسے بھی جنت کی سیر کرا دوں گا۔‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ نے بڑے صبرو تحمل کے ساتھ اپنے مرید کا جواب سنا۔ پھر نہایت دردمندانہ لہجے میں فرمایا ’’اگر وہ نہیں آتا تو ہم خود چلے جاتے ہیں۔ اس نادان کو کیا معلوم کہ پیر کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں؟ اور جب کسی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا جاتا ہے تو اس کا مفہوم کیا ہوتا ہے؟‘‘
اس کے بعد حضرت جنید بغدادیؒ اپنے مرید کے یہاں تشریف لے گئے۔ وہ بڑی شان و شوکت کے ساتھ ایک تخت پر بیٹھا ہوا تھا اوراس کے چند معتقد تخت کے نیچے جمع تھے۔ حضرت جنید بغدادیؒ کو دیکھ کر مرید نے کسی خاص ادب و احترام کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ اپنی حرکات و سکنات سے یہی تاثر دیتا رہا کہ وہ خود ولایت کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہے۔
حضرت شیخؒ نے اپنے مرید کے اس گستاخانہ رویے کو نہایت خوش دلی کے ساتھ برداشت کیا۔ پھر اس کے شب و روز کا حال پوچھا تو وہ اسی انداز میں لاف زنی کرنے لگا۔ ’’میں رات بھر جنت کی سیر کرتا ہوں۔ فرشتے میزبان ہوتے ہیں اور خدا کی نعمتیں میرے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔‘‘
’’اس رات بھی تم جنت کی سیر کو جاؤ گے؟ مرید کی گفتگو سن کر حضرت جنید بغدادیؒ نے پوچھا۔
’’یقیناً!‘‘ مرید کی نخوت کا وہی عالم تھا۔ اسے یہ احساس تک نہیںتھا کہ پیرو مرشد اس کے سامنے موجود ہیں۔
’’ پھر ہماری خاطر ایسا کرنا کہ جب فرشتے تمہیں بہشت میں لے جائیں اور تمہارے سامنے خدا کی نعمتیں پیش کردیں تو تم صرف ایک بار ’’لاحول…‘‘ پڑھ دینا۔‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا۔
’’مجھے اس کی کیا ضرورت؟‘‘ مرید نے حیران ہوکر کہا۔
’’تمہیں شاید اس کی ضرورت نہ ہو، مگر میری درخواست ضرور ہے۔‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ نے اپنے مرید کے متکبرانہ طرز عمل کو نظر انداز کرتے ہوئے فرمایا اور واپس تشریف لے آئے۔
آج رات بھی حسب معمول ’’فرشتے‘‘ خواب میں آئے اور اسے اونٹ پر سوار کرکے بہشت میں لے گئے۔ مختلف مقامات کی سیر کرانے کے بعد نفیس و لذیذ کھانے پیش کئے۔ اگرچہ اس شخص نے پیرو مرشد کی نصیحت کو دل سے قبول نہیں کیا تھا، لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی زبان سے کلمہ مقدس نکل گیا۔ ابھی فضا میں ’’لاحول ولا قوۃ‘‘ کی گونج باقی تھی کہ تمام ’’فرشتے‘‘ چیختے ہوئے بھاگ گئے۔ اب وہ شخص اپنی ’’جنت‘‘ میں تنہا تھا اور اس کے سامنے بہشتی کھانوں کے بجائے مردہ انسانوں کی ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں۔ یہ پر ہول منظر دیکھ کر حضرت جنید بغدادیؒ کے نافرمان مرید کی آنکھ کھل گئی۔ اس کا پورا جسم خوف و دہشت سے لرز رہا تھا اور وہ ہذیانی انداز میں چیخ رہا تھا۔
’’فرشتے کیا ہوئے؟ اور میری وہ دلفریب جنت کہاں گئی؟‘‘
پھر جب شیطان کا طلسم چاک ہوگیا تو وہ شخص روتا ہوا پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت جنید بغدادیؒ کے قدموں سے لپٹ کر عرض کرنے لگا ’’اگر آپ میری رہنمائی نہ فرماتے تو شیطان مجھے اس وادیٔ ظلمات میں لے جا کر ہلاک کر ڈالتا۔ بے شک! مرید کے لئے تنہائی زہر ہے۔‘‘(جاری ہے)
٭٭٭٭٭