سیدنا خبابؓ آزمائش کی بھٹی میں

ام انمار خزاعیہ ایک روز مکے میں واقع بردہ فروشوں کے بازار میں پہنچی۔ وہ ایک غلام خریدنا چاہتی تھی تاکہ اس سے خدمت لے اور اس کی کمائی سے فائدہ حاصل کرے۔ وہ فروخت کے لیے لائے ہوئے ایک ایک غلام کے چہرے کو بغور دیکھتی پھر رہی تھی۔ آخر اس کی نگاہ انتخاب ایک لڑکے پر جا کر ٹک گئی، جو ابھی سن بلوغ کو نہیں پہنچا تھا۔ اس لڑکے کی جسمانی صحت اور اس کے چہرے سے ظاہر ہونے والے ذہانت و فطانت کے آثار نے ام انمار کو اس کی خریداری پر آمادہ کیا، اس نے قیمت ادا کر کے اسے خرید لیا۔ گھر جاتے ہوئے ام انمار نے راستے میں اس سے پوچھا۔
’’بچے! تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
’’خباب‘‘
’’اور تمہارے والد کا؟‘‘
’’ارت‘‘۔
’’کہاں کے رہنے والے ہو؟‘‘
’’نجد کا‘‘
’’تب تو تم عربی النسل ہو‘‘
’’ہاں، اور میرا تعلق بنو تمیم سے ہے۔‘‘
’’تم ان بردہ فروشوں کے ہاتھ کیسے لگ گئے؟‘‘
’’ایک قبیلے کے لوگوں نے ہماری بستی پر اچانک چھاپہ مار کر ہمارے جانوروں کو چھین لیا، عورتوں کو گرفتار کر لیا اور بچوں کو پکڑ لیا، پکڑے جانے والوں میں، میں بھی تھا۔ پھر میں یکے بعد دیگرے مختلف ہاتھوں سے ہوتا ہوا یہاں مکہ پہنچ گیا اور اب آپ کے ہاتھ میں ہوں۔‘‘
ام انمار نے اپنے اس غلام کو ایک آہن گر کے سپرد کر دیا تاکہ وہ اس سے اسلحہ سازی کا ہنر سیکھے اور اس نے بہت جلد اس فن میں مہارت حاصل کر لی اور اس میں طاق ہو گیا، جب اس کے بازو خوب قوی ہو گئے اور وہ جسمانی طور پر کافی مضبوط ہو گیا تو ام انمار نے ایک دکان کرائے پر لی اور اسلحہ سازی کے لیے ضروری اوزار اور سامان خرید کر غلام کے حوالے کیا، اس کی مہارت فن کے ذریعے خوب مالی فوائد حاصل کرنے لگی۔ چند ہی دنوں میں خباب کی فنی مہارت کی شہرت مکے کی پوری آبادی میں پھیل گئی اور لوگ کثرت سے ان کے پاس تلواریں خریدنے کے لیے آنے لگے، کیونکہ وہ ایک بہترین کاریگر ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت دیانت دار اور صادق القول شخص تھا۔
خباب اپنی کم سنی اور نوجوان کے باوجود نہایت صاحب فہم و فراست اور زیور عقل و دانش سے پورے طور پر آراستہ تھے، جب وہ اپنے کاموں سے فارغ ہو کر تنہائی میں ہوتے تو اکثر اس جاہلی معاشرہ کے متعلق سوچا کرتے جو ایڑی سے چوٹی تک فساد اور بگاڑ کی دلدل میں دھنسا ہوا تھا اور یہ دیکھ کر کہ اہل عرب کی زندگی پر شدید قسم کی جہالت اور اندھی گمراہی مسلط ہے۔ جس کا ایک شکار وہ خود بھی ہیں۔ سخت گھبراہٹ میں مبتلا ہو جایا کرتے تھے اور بے ساختہ پکار اٹھتے کہ ’’ایک نہ ایک دن اس تاریک رات کا خاتمہ ہو کر رہے گا‘‘۔
اور دل ہی دل میں اپنے لیے درازی عمر کی تمنا کرتے تاکہ اپنی آنکھوں سے جہالت و گمراہی کی اس تاریکی کو چھٹتے اور علم و ہدایت کی روشنی کو نمودار ہوتے ہوئے دیکھ لیں اور خباب کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ ان کی آرزو بہت جلد پوری ہوگئی۔ ان کے علم میں یہ بات آ گئی کہ نور ہدایت کی شعاعیں بنی ہاشم کے ایک فرد محمدؐ بن عبد اللہ (فداہ ابی و امی) کے منہ سے نکل کر گرد و پیش کے تیرہ و تار ماحول کو منور کرنا شروع کر چکی ہیں۔ وہ بارگاہ رسالتؐ میں حاضر ہوئے۔ آپؐ کا پیغام سنا اور اس پیغام کے نور سے ان کا مکمل وجود سر تا پا جگمگا اٹھا۔
انہوں نے پیغمبر اسلامؐ کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اس بات کی شہادت دی کہ ’’وہ خدائے واحد کے بندے اور رسول ہیں‘‘ اور اس طرح وہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے چھٹے شخص بن گئے اور کہا جاتا ہے کہ حضرت خبابؓ پر ایک ایسا وقت بھی گزرا کہ وہ اسلام کا چھٹا حصہ تھے۔
حضرت خبابؓ نے اپنے اسلام کو کسی سے چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ اس لیے ام انمار کو ان کے مسلمان ہونے کی خبر بہت جلد معلوم ہو گئی، اس خبر کو سنتے ہی اس کے غیظ و غضب کی آگ بھڑک اٹھی۔ اس نے اپنے بھائی سباع عبد العزیٰ کو ساتھ لیا۔ قبیلہ بنو خزاعہ کے کچھ اور نوجوان بھی اس کے ہمراہ ہو گئے۔ یہ سب لوگ حضرت خبابؓ کے یہاں پہنچے۔ اس وقت وہ اپنے کام میں مشغول تھے۔ سباع نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’خباب تمہارے متعلق ہم کو ایک ایسی خبر ملی ہے، جس پر یقین کرنا ہمارا لیے آسان نہیں ہے۔‘‘
’’ کون سی خبر‘‘؟ انہوں نے پوچھا۔
’’یہ بات ہر طرف مشہور ہو رہی ہے کہ تم بے دین ہو گئے ہو اور اپنے آباء و اجداد کے دین کو ترک کر کے بنی ہاشم کے اس شخص کی پیروی کرنے لگے ہو‘‘۔ سباغ نے غصے سے تیز ہوتے ہوئے کہا۔
’’میں بے دین نہیں ہوا ہوں۔ میں تو اس الٰہ واحد پر ایمان لایا ہوں، جس کا کوئی شریک و سہیم نہیں اور میں نے تمہارے بتوں کی پرستش چھوڑ دی ہے اور اس بات کی گواہی دی ہے کہ حضرت محمدؐ خدائے تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘ حضرت خبابؓ نے نہایت پر سکون لہجے میں جواب دیا۔
حضرت خبابؓ کے یہ الفاظ جیسے ہی سباع اور اس کے ساتھیوں کے کانوں میں پڑے۔ وہ یکایک ان پر پل پڑے اور ان کے اوپر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کر دی اور جس کے ہاتھ میں جو چیز آ گئی، اسی سے مارنے لگا، چاہے وہ ہتھوڑا ہو یا لوہے کا ٹکڑا۔ وہ ان کو مارتے رہے، یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہو گئے اور ان کے جسم سے خون بہنے لگا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment