امت رپورٹ
جارحیت کا منہ توڑ جواب ملنے کے بعد اب بھارت اپنی روایتی ’’پراکسی وار ‘‘ کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کرانے کی نئی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ باخبر ذرائع نے بتایا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان براہ راست جنگ یا محدود جنگ کا خطرہ فی الحال ٹل گیا ہے۔ کیونکہ امریکہ سمیت بھارت کو شہ دینے والے دیگر چند ممالک نے دہلی حکومت کو باور کرا دیا ہے کہ کسی قسم کے نئے مس ایڈونچر یا محدود جنگ چھیڑنے کی صورت میں معاملات ایٹمی جنگ تک جاسکتے ہیں۔ کیونکہ پاکستان نے اپنے دفاع کے لئے انتہائی قدم اٹھانے کا ذہن بنا رکھا ہے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے بھارت نے کھلے عام وار کے بجائے خفیہ وار کرنے کا پلان بنایا ہے۔
دہلی میں موجود ذرائع کے بقول بھارتی جارحیت کے کرارے پاکستانی جواب نے مودی کی الیکشن کمپین پر الٹا اثر کیا ہے۔ پچھلے ایک ہفتے کے دوران بی جے پی کے ایک درجن سے زائد انتخابی جلسوں میں توقعات سے 60 فیصد کم لوگ شریک ہوئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سچویشن میں بی جے پی کی یہ ترکیب الٹی ہوچکی ہے، جس کے تحت وہ پاکستان کے خلاف جارحیت کے ذریعے اپنی انتخابی مہم کو کامیاب بنانا چاہتی تھی۔ ذرائع کے مطابق چونکہ یہ آپشن فی الحال ختم ہوچکا ہے۔ لہٰذا دہلی سرکار نے متبادل حکمت عملی کے طور پر کنٹرول لائن کو مسلسل گرم رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ سلسلہ الیکشن کے روز تک جاری رہنے اور اس میں مزید اضافے کی توقع ہے۔ یاد رہے کہ کنٹرول لائن پر جنگ بندی کی خلاف ورزی اور بلا اشتعال بھارتی گولہ باری 2014ء سے جاری ہے۔ جس میں اب تک درجنوں عام پاکستانی شہری شہید ہوچکے ہیں۔ تاہم جوابی کارروائی میں پاکستان حتی الامکان سویلین کے بجائے بھارتی فوجی چوکیوں کو نشانہ بناتا ہے۔ ذرائع کے مطابق کنٹرول لائن پر جنگ بندی کی خلاف ورزی میں اضافے کے ساتھ ساتھ مودی سرکار نے الیکشن تک مقبوضہ کشمیر میں بربریت بڑھانے کی پلاننگ بھی کر رکھی ہے۔
ادھر اسلام آباد میں موجود باخبر ذرائع نے بتایا کہ الیکشن مہم میں گرتی مقبولیت کو سہارا دینے کے لئے مودی حکومت نے کنٹرول لائن پر بلا اشتعال گولہ باری میں اضافے اور مقبوضہ کشمیر میں فوجی آپریشن تیز کرنے کا فیصلہ تو کیا ہی ہے۔ تاہم ایسی انٹیلی جنس اطلاعات ہیں کہ الیکشن سے قبل بی جے پی حکومت ’’را‘‘ کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی بڑی کارروائی کرانے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس سلسلے میں بھارتی قومی سلامتی کے بدنام زمانہ سربراہ اجیت دووال نے حال ہی میں مشرق وسطیٰ کا خفیہ دورہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق افغانستان میں موجود کالعدم ٹی ٹی پی اور جماعت الاحرار سے ’’را‘‘ کا دل کھٹا ہو چکا ہے۔ پچھلے دو تین برس کے دوران ان دونوں دہشت گرد تنظیموں کو پاکستان میں کارروائی کے لئے ’’را‘‘ کی جانب سے کم از کم ایک درجن سے زائد ٹاسک دیئے گئے تھے۔ لیکن اس میں سے ایک بڑا ہدف بھی کالعدم ٹی ٹی پی یا جماعت الاحرار حاصل نہیں کرسکی۔ جس پر بالخصوص اجیت دووال کو زیادہ سبکی کا سامنا ہے کہ ان میں بیشتر اہداف اور ان کی منصوبہ بندی بھارت کے اسی نام نہاد سیکورٹی چیف نے کی تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ اس تناظر میں اب بھارت افغانستان میں موجود اپنے ان ’’پراکسی اثاثوں‘‘ کو ایک تیسری دہشت گرد قوت سے بدلنا چاہتا ہے۔ اجیت دووال کا حالیہ خفیہ دورہ مشرق وسطیٰ اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ جہاں اجیت دووال نے داعش کے بچے کھچے کمانڈروں سے ملاقاتیں کیں۔ ذرائع کے بقول اگرچہ افغانستان میں ’’الخراسانی‘‘ کے نام سے داعش کی ایک شاخ موجود ہے اور خراسانی گروپ پاکستان میں دہشت گردی کی بعض کارروائیوں کی ذمہ داری بھی قبول کرچکا ہے۔ لیکن داعش کے اس مقامی گروپ میں زیادہ تر وہی جنگجو شامل ہیں، جو ٹی ٹی پی، جماعت الاحرار، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان یا لشکر اسلام سے الگ ہوکر اس کا حصہ بنے۔ یہ ازبک، تاجک، افغان اور پاکستانی جنگجو ہیں۔ تاہم نئے بھارتی منصوبے کے تحت اب داعش کے عرب النسل جنگجوئوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا پلان بنایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں اجیت دووال کی سفارش پر وزیر اعظم نریندر مودی نے ’’را‘‘ کے دہلی ڈیسک کے لئے ایک الگ فنڈ قائم کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ننگرہار اور تورہ بورہ میں داعش کے چار سے پانچ سو عرب جنگجو پہلے سے موجود ہیں۔ ان تمام کو قریباً دو برس پہلے خفیہ طور پر شام اور عراق سے امریکی ہیلی کاپٹروں میں افغانستان لایا گیا تھا۔ اس کی تصدیق خود حامد کرزئی بھی کر چکے ہیں۔ الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق افغان صدر نے انکشاف کیا تھا کہ افغانستان میں امریکہ داعش کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق امریکہ کی جانب سے داعش جگجوئوں کو افغانستان لانے کا مقصد افغان طالبان کو کائونٹر کرنا تھا۔ لیکن تاحال امریکہ کو اپنے اس مقصد میں کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ اب اجیت دووال ان عرب جنگجوئوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور اس سلسلے میں بھاری پیسہ خرچ کیا جارہا ہے۔
شام اور عراق میں شکست کے بعد داعش کے جنگجو اب مشرقی شام کے ایک قصبے باغوز تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ تاہم عالمی دہشت گرد تنظیم کے متعدد اہم رہنمائوں کو نشانہ نہیں بنایا جاسکا ہے۔ ذرائع کے مطابق اجیت دووال نے شام میں داعش کے ان ہی کمانڈروں سے تازہ رابطے کئے، جن کے ساتھ وہ قریباً چار سال قبل اسی نوعیت کے ایک خفیہ دورے کے دوران ملا تھا۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ صرف ایک داعش ہی نہیں شام، عراق اور لیبیا میں لڑنے والی دہشت گرد مسلح تنظیموں کے سینکڑوں ارکان وہاں موجود ہیں، جو مکمل تربیت یافتہ ہیں۔ داعش سمیت اجیت دووال کا ان تمام جنگجوئوں پر فوکس ہے۔ ذرائع کے مطابق فوری طور پر یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ پاکستان مخالف پلان کے تحت اجیت دوال نے شام سے داعش کے مزید عرب جنگجو افغانستان پہنچانے کا پلان بنایا ہے یا افغانستان میں پہلے سے موجود عرب جنگجوئوں کو شام میں موجود قیادت کے ذریعے پیغام پہنچایا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس خفیہ پلان میں اجیت دووال کو اسرائیلی قومی سلامتی کونسل کے سربراہ بین شبت کا پورا تعاون حاصل ہے۔ پچھلے دو برسوں میں اجیت دووال کی اپنے اسرائیلی ہم منصب کے ساتھ تین سے زائد ملاقاتیں ہوچکی ہیں اور اب دونوں کے درمیان مضبوط تعلقات ہیں۔ رواں برس جنوری کے وسط میں بین شبت ایئر انڈیا فلائٹ کے ذریعے دہلی پہنچا تو اس موقع پر بھی اجیت دووال کے ساتھ اسرائیلی سیکورٹی چیف کی تفصیلی ملاقات ہوئی تھی۔ واضح رہے کہ شام اور عراق میں جنگ کے دوران داعش کے زخمیوں کا علاج اسرائیلی اسپتالوں میں ہونے کے دستاویزی اور ویڈیوز کی شکل میں ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ 2014ء کے اواخر میں اجیت دووال نے جب شام اور عراق کا پہلا خفیہ دورہ کیا تھا، تو داعش اور دیگر جنگجو تنظیموں کے کمانڈروں سے ملاقات کرانے میں اسرائیلی حکام کا رول بھی تھا۔ بعد ازاں اجیت دووال افغانستان پہنچا۔ جہاں قندھار کے بھارتی قونصل خانے میں موجود ’’را‘‘ کے افسروں نے اجیت دووال کی ملاقات ٹی ٹی پی اور داعش کے مقامی دہشت گردوں سے کرائی تھی۔
مشرق وسطیٰ پر گہری نظر رکھنے والے معروف دفاعی تجزیہ نگار اور مصنف رابرٹ فسک کے مطابق بھارتی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اسرائیل کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات ہیں۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں اسرائیلی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار بھارت ہے۔ صرف 2017ء میں بھارت نے اسرائیل کے ساتھ 9.2 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے کئے۔ رابرٹ فسک کے بقول اس کے عوض اسرائیل نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لئے بھارت کی مدد کر رہا ہے۔ بلکہ اس نے بھارت کو دہشت گرد حملوں سے بچانے کی ذمہ داری بھی اٹھارکھی ہے۔ رابرٹ فسک کے مطابق اس وقت مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے تمام ہتھکنڈے وہی ہیں جو اسرائیلی فورسز نے مغربی کنارے اور غزہ میں نہتے فلسطینیوں کے خلاف اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یہ حربے بھارتی فورسز نے اسرائیلی فورسز سے ہی سیکھے ہیں۔
٭٭٭٭٭