قرب الٰہی سے مانع 4 رکاوٹیں

ایک بار حضرت جنید بغدادیؒ مجلس میں وعظ فرما رہے تھے۔ یکایک ایک مرید نے بے قرار ہو کر نعرہ مستانہ بلند کیا۔ حضرت جنیدؒ نے وعظ بند کر دیا اور مرید کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’جو اس طرح نعرہ زنی کرتا ہے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘
یہ کہہ کر آپؒ نے مرید کو اپنی مجلس سے نکال دیا۔ بعد میں اس مرید نے کئی دن تک معافی مانگی، تب کہیں جا کر اسے دوبارہ مجلس میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی۔ حضرت جنیدؒ اس طرح ذکر کرتے تھے کہ اسم الٰہی آپؒ کی سانسوں میں جاری ہوتا تھا۔ آپؒ اس بات کے قائل نہیں تھے کہ اپنے خالق کو با آواز بلند پکارا جائے۔ خود قرآن کریم میں بھی اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب بندہ دعا کے وقت اپنے مالک کو پکارے تو اس طرح کہ جیسے وہ سرگوشیاں کر رہا ہو۔ جنید بغدادیؒ کی احیتاط تو سرگوشی سے بھی بڑھ کر تھی کہ آپؒؒ دل کی گہرائیوں سے حق تعالیٰ کو پکارا کرتے تھے۔
حضرت جنید بغدادیؒ کا مشہور قول ہے کہ جو قرآن حکیم کا پیر نہ ہو اور حضور اکرمؐ کا متبع نہ ہو، اس کی تقلید ہر گز نہ کرو، ورنہ گمراہ ہو جاؤگے۔‘‘
ایک اور موقع پر آپؒ نے فرمایا کہ رسالت مآبؐ کے راستے کے سوا تمام راستے مخلوق پر بند ہیں۔ آپؒ کے اس قول مبارک کی تشریح یہ ہے کہ حضور اکرمؐ کا راستہ چھوڑ کر انسان جس راستے پر چلے گا، گمراہی اس کا مقدر بن جائے گی۔
حضرت جنید بغدادیؒ کے اس قول کو مشہور فارسی شاعر شیخ سعدیؒ نے اپنے ایک شعر میں اس طرح نظم کیا ہے؎
خلاف پیمبرکسے رہ گزید
کہ ہرگز بہ منزل نہ خواہد رسید
( جس نے پیغمبر اسلامؐ کے خلاف راستہ اختیار کیا، وہ منزل تک نہیں پہنچ سکا)
حضرت جنید بغدادیؒ نے ایک مجلس میں اسرار معرفت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’حق تعالیٰ اور بندے کے درمیان چار دریا ہیں۔ جب کہ تک بندہ ان چاروں دریاؤں کو عبور نہ کرے، اس وقت تک اسے حق تعالیٰ کی قربت میسر نہیں آسکتی۔‘‘
ایک دریا دنیا کا دریا ہے، جو زہد (پرہیزگاری) کی کشتی کے بغیر عبور نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرا آدمیوں کا دریا ہے۔ اس دریا کو پار کرنے کے لئے آدمیوں سے دور رہنا چاہئے۔ تیسرا دریا شیطان ہے۔ شیطان کی مخالفت کرنا ہی اس دریا کی کشتی ہے۔ ایک دریا نفس کا ہے۔
اپنے اس قول مبارک کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا ’’اپنے نفس کی مخالفت کرنا ہی دراصل ابلیس کی مخالفت ہے۔ انسانی نفس اور شیطان کے وسوسوں میں فرق یہ ہے کہ نفس جس چیز کی خواہش کرتا ہے، جب تک اسے حاصل نہیں کر لیتا، اس وقت تک اسے سکون نہیں ملتا۔ چاہے اسے کتنا ہی روکا جائے۔ بالفرض اگر اس وقت باز بھی آجائے تو پھر کسی دوسرے موقع کی تلاش میں رہتا ہے، یہاں تک کہ اپنے نفس کی خواہش پر عمل کرکے قرار پا جاتا ہے۔
شیطان کے وسوسے کا ایک ہی علاج ہے کہ لاحول پڑھنے سے یہ مرض دور ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب آپؒ کے مرید نے لاحول پڑھی تو شیطانی طلسم پارہ پارہ ہو گیا اور وہ خیالی جنت ایک خوف ناک ویرانے میں تبدیل ہوگئی۔
ایک روز آپؒ وعظ فرما رہے تھے کہ ایک مرید کھڑا ہوا اور اس نے گستاخانہ لہجے میں سوالات شروع کردیئے۔ حاضرین مجلس مرید کی اس بے ادبی پر سخت برہم ہوئے، مگر حضرت جنیدؒ نے سکوت اختیار کیا۔ پھر وہ بے ادب مرید اس قدر شرمندہ ہوا کہ آپؒ کی مجلس سے اٹھ کر چلا گیا اور مسجد شونیزیہ میں گوشہ نشین ہوگیا۔ یہ وہی مشہور مسجد ہے، جہاں بغداد کے بہت سے درویش ہمہ وقت جمع رہتے تھے۔
ایک دن حضرت جنید بغدادیؒ مسجد شونیزیہ تشریف لے گئے۔ اتفاق سے وہ گستاخ مرید سامنے آگیا۔ نظر ملتے ہی اس پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ وہ فرش پر گر پڑا اور اس کے سر سے خون جاری ہو گیا۔ حیرت ناک بات یہ تھی کہ خون کا جو قطرہ مسجد کے فرش پر گرتا تھا، اس سے کلمہ طیبہ کی تصویر بن جاتی تھی۔
حضرت جنید بغدادیؒ نے یہ منظر دیکھا تو نہایت پر جلال لہجے میں فرمایا: ’’کیا تو مجھے یہ دکھانا چاہتا ہے کہ تیرا درجہ بلند ہوگیا ہے؟ یاد رکھ کہ اس درجے تک تو ذکر کرنے والے بچے بھی پہنچ جاتے ہیں۔ مرد تو وہ ہے جو اپنے مقصود تک پہنچے۔‘‘
آپؒ کی گفتگو کا مرید پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ تڑپنے لگا اور پھر اس نے اسی حالت میں جان دے دی۔
مرنے کے کچھ دن بعد کسی بزرگ نے اسے خواب میں دیکھ کر پوچھا۔
’’ تیرا کیا حال ہے؟‘‘
جواب میں حضرت جنید بغدادیؒ کے مرید نے کہا: ’’میں نے برسوں اس راستے میں دوڑ دھوپ کی، مگر یہاں آکر یہ راز کھلا کہ دین کی منزل بہت دور ہے۔ میرے سارے قیاس و گمان باطل تھے، جو مجھے عمر بھر فریب دیتے رہے۔‘‘
اس واقعے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ معرفت کیا ہے اور مرد مومن کی منزل کہاں ہے؟(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment