تثلیث سے توحید تک

ملائیشین طالب علم نے اسلام کو مجھ پر ٹھونسنے کی کوشش نہ کی, بلکہ بتدریج اور آہستہ آہستہ اسلام کی خوبیاں آشکار کر دیں۔گفتگو میں اسلامی پردے ’’حجاب‘‘ کا بھی ذکر آیا۔ میرا تصور یہ تھا کہ مسلمان مرد کو عورتوں کی کشش بے قابو اور دیوانا بنا دیتی ہے، اس لیے مسلمان عورتوں کو ان سے محفوظ رہنے کیلئے پردے میں لپٹی رہنا چاہئے۔ اس مرد شریف نے قرآن سے حقائق کھول کر بیان کیے اور اس سلسلے میں اپنے خاندان کی مثالیں دیں۔ میں سمجھتی تھی کہ مسلمان عورتوں کو اپنے جیون ساتھی کے انتخاب کا حق حاصل نہیں، مگر اب معلوم ہوا کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس نے بڑے لطیف الفاظ میں بتایا کہ اس کیلئے یہ کس قدر مسحور کن ہے کہ وہ اپنی بیوی کو گھر سے باہر غیر مردوں کی نگاہوں سے بچنے کیلئے مناسب لباس پہنے دیکھے اور گھر کے اندر اس کے ٹخنوں کی خوبصورتی، اس کے گول بازوئوں کی ملائمت اور نگاہوں سے اوجھل اس کی حسین گردن کے تصور اور ان کی تمنا میں کھویا رہے۔ میں حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔ مغرب میں خواتین کے یہ اعضاء دیکھنے کی چیز خیال کیے جاتے ہیں، کیونکہ وہ ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ میں نے مغربی لباس اور مغربی طور اطوار پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالی تو احساس ہوا کہ اپنی تمام تر ذاتی آزادی سے لطف اندوز ہونے کے باوجود ہم خوش نہیں، ہم سب اداس اور زخمی روحیں ہیں، جنہیں ذرائع ابلاغ نے بے وقوف بنا کر ڈالر دیوتا کی پوجا کرنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ ہزاروں ڈالر نسوانی جسم کو ’’خوبصورت‘‘ بنانے پر صرف کیے جاتے ہیں۔ خواہ اس میں اس کا شرف انسانیت بھی کیوں نہ چھن جائے اور جو عورتیں ٹپ ٹاپ کے سانچے میں فٹ نہیں بیٹھتیں، کیونکہ وہ بہت موٹی یا پتلی ہوتی ہیں، وہ زندگی کے عذاب سے دوچار ہو کر مریض بن جاتی ہیں۔
میرا یہ مونس و غم خوار بھی حقیقی اسلام کی عملی شکل کی تلاش میں نکلا ہوا تھا، اسے شدید احساس تھا کہ کس طرح برسراقتدار لوگوں نے بہت کچھ اپنے مفادات کے مطابق ڈھال لیا ہے، لیکن اس کا پس منظر مجھ سے مختلف تھا۔ اس کے خاندان والے اکھٹے نماز ادا کرتے تھے۔ وہ شام کو مل کر بیٹھتے اور قرآن پاک پڑھتے تھے۔ مذہب ان کی زندگی کا محور تھا۔ میں اس بات پر بہت رشک کرتی۔ میں نے اسلام کے بارے میں گمراہ کن تصورات کا بھاری بوجھ اٹھا کر رکھا تھا، جسے اس نے ایک ایک کر کے میرے سر سے اتار دیا۔ یہ کام اس نے مثالوں سے، اپنے سلوک سے اور قرآن کے صفحات سے رہنمائی کرتے ہوئے کیا۔ وہ نماز پڑھتا میں اسے دیکھتی رہتی۔ بعض اوقات وہ مجھے دیکھتا جب میں گھیان دھیان میں لگی ہوتی۔ کبھی کبھی ہم دیہی علاقے میں، کسی پہاڑ پر یا دریا کنارے جا نکلتے اور وہاں اپنی اپنی عبادت بجا لاتے۔ میں مزید ایک برس تک بدھ مت کی حلقہ بگوش رہی۔ اس دوران مطالعہ اور صرف مطالعہ میرا اوڑھنا بچھونا تھا۔ میں نے اسلام، دنیائے عرب اور مشرق اوسط کی سیاسیات پر بے شمار کتابیں اور جرائد چاٹ ڈالے۔ میں نے ہار ٹفورڈ سیمنری کے ’’مطالعہ اسلام پروگرام‘‘ کا سنا اور وہاں عربی پڑھنے جا پہنچی۔ وہیں پروفیسر ابراہیم ابو ربیع سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اپنے لیکچر سننے کی دعوت دی۔ سیمنری کی مطبوعہ ’’دی مسلم ورلڈ‘‘ پڑھی۔ اس کی تحریروں نے مجھے بڑا متاثر کیا۔ مجھے اس خالص مسلمان کے دنیا سے اٹھ جانے پر بڑا افسوس ہوا۔ اب میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ رمضان کے روزے رکھنے شروع کیے۔ انہیں اس پر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی، تاہم کسی نے مجھ سے کبھی نہ پوچھا کہ میں کب اسلام قبول کررہی ہوں؟ وہ مجھے اپنی برادری کی رکن جان کے یہ احساس دلاتے کہ انہیں مجھ سے انس اور ہمدردی ہے، خواہ میں یہودی ہوں یا عیسائی۔
آخر کار فیصلہ کن موڑ آگیا جب مجھے ایک ملائیشین بھائی نے ایک کتاب پڑھنے کو دی۔ اس نے گریجویشن کی تھی اور اب گھر لوٹ رہا تھا۔ یہ کتاب تھی مورس بوکائی کی ’’دی بائبل، دی قرآن اینڈ سائنس‘‘ یہ میرے لیے حلقہ بگوش اسلام کا فیصلہ کرنے میں آخری محرک ثابت ہوئی۔ اس کتاب نے باقی تمام سوالوں کا جواب دیا، جو اسلامی عقیدے اور سائنس، ٹیکنالوجی اور ماحول کے حوالے سے اسلام کے متعلق میرے ذہن میں اٹھ رہے تھے۔
ایک مسلمان بھائی نے مجھے قرآن کا تحفہ دیا تھا۔ اب موس بوکائی کی کتاب سے میرے اندر قرآن پڑھنے کا شوق و ذوق امڈ آیا تو میں التزام سے اس مقدس کتاب کی تلاوت کرنے اور اسے سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔ اور ایک بار جب میں نے اسلام قبول کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو ہر طرف سے مجھے مدد ملنے لگی۔ عرصہ پہلے میں نے اپنے دوست سے کہا تھا کہ وہ مجھے نماز پڑھنا سکھا دے، لیکن اس نے حامی نہ بھری تھی۔ وہ مجھ سے بہتر جانتا تھا کہ ابھی میں اس کیلئے تیار نہ تھی۔
میں اپنی حد میں کچھ عرصے سے مسلمان ہو چکی تھی۔ تاہم دنیا کے سامنے میں نے بعد میں قبول اسلام کا اعلان کیا۔ اس نعمت سے بہرہ ور ہونے پر میں رب تعالیٰ کے حضور سجدئہ شکر بجا لاتی ہوں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment