دارالعلوم دیوبند سے پوچھئے

ایگریمنٹ ٹائپ کرنا
سوال: میں جہاں ملازمت کرتا ہوں، اس کمپنی میں اسٹاف ممبر کیلئے ایک اسٹاف کلب ہے، جس میں ثقافتی اور سماجی کھیلوں کی سرگرمیاں وغیرہ ہوتی ہیں۔ لیکن ثقافتی سرگرمی کے نام پر شرک اور کفر کی کچھ رسمیں ہوتی ہیں، جیسے دُرگا پوجا وغیرہ۔ حالانکہ یہ سب سرگرمیاں اسٹاف کلب کی دوسری سرگرمیوں کے مقابلے کم ہوتی ہیں۔ میرے بوس نے مجھے ایک ایگریمنٹ ٹائپ کرنے کو دیا، جس میں کلب کے اصول و ضوابط ہیں، جس میں لکھا ہے کہ اس میں ثقافتی اور سماجی اسپورٹ وغیرہ کی سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں، لیکن مذہبی سرگرمیاں نہیں ہوں گی اور بھی بہت سارے اصول ہیں سیکریٹری، اراکین اور صدر کے متعلق جس میں یہ بھی ہے کہ کلب کا پیسہ بینک میں جمع ہوگا اور سود بھی اکائونٹ میں رہے گا۔ تو کیا ایسا ایگریمنٹ ٹائپ کر سکتے ہیں، جب کہ ہمیں معلوم ہو کہ تقافتی سرگرمی کے نام پر شرک اور کفر کے کام بھی کچھ درجوں میں ہوں گے (حالانکہ ایگریمنٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ مذہبی کام نہیں ہوں گے) تو کیا یہ ایگریمنٹ ٹائپ کر سکتے ہیں؟ (میں اس کلب کا ممبر نہیں ہوں)۔
جواب: صورت مسئولہ میں آپ کے لیے مذکورہ ایگریمنٹ ٹائپ کرنے کی گنجائش ہے۔ (فتویٰ :1226-1017/sd=10/1439، دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند)
گاڑیوں سے متعلق مختلف مسائل
سوال: میرا سوال ہے کہ قسطوں پر گاڑی دینے والوں کو جب گاڑی کی پوری قسط اپنے وقت پر نہیں ملتی ہے تو وہ لوگ گاڑی زبردستی واپس لے لیتے ہیں اور اس کا پیسہ واپس نہیں کرتے۔ بعد میں اس گاڑی کو دوسرے کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں اور اپنی بقایا رقم نکال لیتے ہیں۔ خریدنے والے کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اسے گاڑی سستی ملتی ہے تو یہ سودا حرام ہے یا حلال؟
جواب: جب گاڑی قسط وار ایک شخص کے ہاتھ فروخت کر دی اور برابر قسط وار روپے ادا کر رہا ہے تو وہ گاڑی اس کی ملکیت ہوگئی، ایک آدھ قسط کی عدم ادائیگی کی صورت میں گاڑی کو خریدار سے زبردستی لے لینا پھر اس گاڑی کا واپس نہ کرنا یہ بہت بڑے ظلم کی بات ہے اور پھر اس کے پیسے واپس نہ کرنا یہ ظلم درظلم ہے، پھر کسی اور کے ہاتھ فروخت کردینا یہ مزید ظلم کی بات ہے، پہلے خریدار سے بھی پیسے لیے اور دوسرے خریدار سے بھی پیسے لیے، یہ فعل قطعاً ناجائز و حرام ہے۔ (فتویٰ (ب): 936=748-6/1431، دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند)
سوال: سعودی عرب کی گورنمنٹ شریعۃ کمیٹی کے مطابق قسطوں پر کار خریدنا جائز ہے۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک قسطوں پر کار خریدنا جائز ہے یا نہیں، جبکہ کار فروخت کرنے والا نقد خریدنے کے بہ نسبت اس صورت میں زیادہ پیسہ لے رہا ہے؟
جواب: قسطوں پر کار کی خریداری جائز ہے، بشرطیکہ اس میں سود دینے کا مسئلہ نہ ہو۔ ویسے نقد میں کم اور ادھار میں زیادہ پیسے لینا شرعاً جائز ہے، قسطوں پر خریدنے کے لیے سود سے بچنے کی ترکیب یہ ہے کہ کار کی قیمت قسطوں پر ادائیگی، یہ سارے مجموعے کو کار کی قیمت قرار دے کر اسی مجموعی قیمت میں خریدیں، یعنی آپ بینک والے سے کہہ دیں کہ ہم اتنی قیمت میں کار خرید رہے ہیں، پھر قسط وار وہ قیمت ادا کرتے رہیں۔ تو یہ صورت بے غبار، جائز اور صحیح ہے۔ (فتویٰ: 1426=1358/ب، دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند)
سوال: ایک شخص ہے جو کہ کار خریدنے کے لیے بینک سے سود پر لون لیتا ہے۔ وہ مقرر کردہ وقت پر اپنا لون واپس نہیں کر سکتا ہے۔ اس لیے بینک کار ضبط کر لیتا ہے۔ اب بینک وہ کار بہت ہی کم دام پر فروخت کرتا ہے۔ میرا سوال ہے کہ: (1) کیا ہم اس طرح کی ضبط کی ہوئی کار بینک سے خرید سکتے ہیں؟ (2) اگر اوپر مذکور سوال کا جواب منفی میں ہے تو سوال یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے اس طرح کی ضبط کی ہوئی کار خریدی ہے اور اب وہ اس کو فروخت کر رہا ہے تو کیا ہم یہ کار خرید سکتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ اس نے اسے بینک سے خریدا ہے؟
جواب: دونوں صورتوں میں آپ کار خرید سکتے ہیں۔ (فتویٰ: 297=259/د، دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند)
سوال: میرا تعلق پاکستان سے ہے اور متحدہ عرب امارات میں رہتا ہوں۔ ایک شخص ایک کار بیچ رہاہے، وہ کہتا ہے کہ اس کار کے لیے دوسرا شخص کیش بیاسی ہزار روپے دینے کے لیے تیار ہے، لیکن میں پانچ، چھ مہینے کی قسطوں میں یہ کار خرید نا چاہتا ہوں تو اس صورت میں وہ اس کار کو مذکورہ قیمت سے مہنگا بیچے گا۔ کیا یہ اضافی رقم سود ہوگی؟ کیا اس کا دینا جائزہے؟ براہ کرم، اس کی وضاحت فرمائیں۔
جواب: جب آپ چھ مہینے کی قسطوں میں زیادہ قیمت ادا کرنے کی شرط پر کار خریدنے کا معاملہ کریں گے تو یہ صورت جائز ہے اور اضافی رقم سود نہیں ہوگی۔ آپ کی طرف سے یہ رقم دینا اور بیچنے والے کا لینا جائز و درست ہے۔ (فتویٰ: 700/ د= 696/ د، دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment