’’عمر! ہر شخص تجھ سے زیادہ سمجھدار ہے‘‘

ابنمصعبؒ کا بیان ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطابؓ کے دور میں لوگوں نے حق مہر بہت زیادہ مقرر کرنا شروع کر دیا۔ ایک دن انہوں نے لوگوں سے کہا کہ تم لوگ عورتوں کا مہر چالیس اوقیے سے زیادہ مت باندھا کرو، خواہ وہ عورت کسی بڑے سردار کی صاحبزادی ہی کیوں نہ ہو۔ اگر کسی نے مہر کی رقم اس سے زیادہ رکھی تو میں چالیس اوقیے سے زائد رقم بیت المال کے حوالے کردوں گا۔
ایک خاتون نے یہ بات سنی تو امیر المومنینؓ کا راستہ روک لیا۔ کہنے لگی کہ آپ کون ہوتے ہیں چالیس اوقیے مہر کی رقم مقرر کرنے والے جب کہ خدا تعالیٰ نے اس پر کوئی پابندی عائد نہیں کی۔
حضرت عمرؓ نے پوچھا: وہ کیسے؟
خاتون نے جواب دیا: اس لئے کہ خدا تعالیٰ کا قرآن کریم میں ارشاد ہے:
ترجمہ: ’’اگر تم نے اپنی بیویوں میں سے کسی کو (بطور مہر) خزانہ بھی دے رکھا ہو، تو بھی اس میں سے کچھ نہ لو۔‘‘ (النساء 20)
(خزانہ کی مقدار چالیس اوقیے سے کہیں زیادہ ہے، اس کی کوئی حد نہیں)
یہ سن کر حضرت عمر بن خطابؓ نے فرمایا:
’’خاتون کا استدلال صحیح ہے اور عمر معاملے کو نہ سمجھ سکا۔ اے عمر! ہر آدمی تم سے زیادہ فقیہ اور سمجھدار ہے۔‘‘
ہمارے معاشرے میں نکاح کے وقت بعض اوقات شرعی حق مہر کا لفظ استعمال ہوتا ہے، جو عموماً 32 روپے ہوتا ہے، یہ درست نہیں، شریعت نے حق مہر کے سلسلے میں کوئی پابندی نہیں لگائی۔ جیسا کہ اوپر والے واقعے میں بیان ہوا۔ لڑکے کی حیثیت کے مطابق مہر مقرر کیا جائے گا۔ اگر لڑکی یا اس کا باپ رضامند ہیں تو پھر محض چند درہم مہر بھی درست ہے۔ جیسا کہ امام سعید بن مسیبؒ نے اپنی بیٹی کا مہر محض 3 درہم رکھا تھا، لیکن اگر لڑکا صاحب حیثیت ہے، تو اس صورت میں باہمی رضامندی سے جتنا بھی مہر مقرر کردیا جائے درست ہوگا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment