درندے بھی حکم مان لیتے

حضرت ابن عمرؓ ایک مرتبہ کسی سفر میں تشریف لے جا رہے تھے تو ان کا گزر ایک ایسی جماعت پر ہوا جو ایک جگہ پر ٹھہری ہوئی تھی۔ حضرت ابن عمرؓ نے ان لوگوں سے ان کی خیریت دریافت کی، آپؓ نے فرمایا کیا تمہارے ساتھ کوئی حادثہ پیش آ گیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہاں راستے میں ایک شیر ہے، جس نے لوگوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہ سن کر حضرت ابن عمرؓ سواری سے اترے اور شیر کے قریب جا کر اس کا کان پکڑ کر اسے راستے سے ہٹا دیا، پھر آپؓ نے فرمایا کہ نبی اکرمؐ نے تیرے بارے میں بالکل سچ فرمایا ہے کہ واقعی تجھے ابن آدم پر ان کے خدا کے علاوہ کسی اور سے ڈرنے کی وجہ سے ان پر مسلط کر دیا گیا ہے، اگر انسان خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرے تو پھر تو اس پر مسلط نہیں، اگر ابن آدم (یعنی انسان) خدا کے علاوہ کسی سے بھی نہ ڈرتا تو وہ اپنے معاملات میں کسی پر بھروسہ نہ کرتا۔
حضرت سفینہؓ نبی کریمؐ کے غلام تھے۔حضرت ابن منکدر کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سفینہؓ روم کی سرزمین کے قریب اپنے لشکر سے پیچھے رہ گئے تو آپؓ کو قید کر لیا گیا، پھر آپ فرار ہو کر لشکر کو تلاش کرتے ہوئے واپس آ رہے تھے کہ راستے میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شیر کھڑا ہے، حضرت سفینہؓ نے شیر کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
اے ابو الحارث! (یہ شیر کی کنیت ہے) میں سفینہؓ، رسول اکرمؐ کا غلام ہوں، میرے ساتھ یہ معاملہ ہو گیا ہے۔ اتنے میں شیر دم ہلاتے ہوئے حضرت سفینہؓ کی بغل میں کھڑا ہو گیا اور حضرت سفینہؓ جب کسی قسم کی (درندوں کی) آواز سنتے تو شیر کو پکڑ لیتے، چنانچہ حضرت سفینہؓ شیر کے ساتھ چلتے رہے یہاں تک کہ آپؓ نے لشکر کو پا لیا، اس کے بعد شیر واپس لوٹ گیا۔ (مشکاۃ المصابیح، 2 /400، الرقم: 5949)
امام حاکمؒ اس واقعے سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ حضرت سفینہؓ سے مروی ہے: میں سمندر میں ایک کشتی پر سوار ہوا۔ وہ کشتی ٹوٹ گئی تو میں اس کے ایک تختے پر سوار ہوگیا۔ اس نے مجھے ایک ایسی جگہ پھینک دیا، جو شیر کی کچھار تھی۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ وہ (شیر) سامنے تھا۔ میں نے کہا: اے ابو الحارث! میں حضور نبی اکرمؐ کا غلام ہوں۔ تو اس نے فوراً اپنا سر خم کر دیا اور اپنے کندھے سے مجھے اشارہ کیا اور وہ اس وقت تک مجھے اشارہ اور رہنمائی کرتا رہا جب تک کہ اس نے مجھے صحیح راہ پر نہ ڈال دیا۔ پھر جب اس نے مجھے صحیح راہ پر ڈال دیا تو وہ دھیمی آواز میں غرایا۔ سو میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے الوداع کہہ رہا ہے۔ امام حاکم فرماتے ہیں: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔ (مشکاۃ المصابیح، 2 /400، الرقم:5949)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment