عباس ثاقب
اس مرتبہ وہ بولا تو اپنے لہجے کی لرزش چھپانے میں ناکام رہا۔ ’’تم منش (انسان) نہیں راکھشس ہو۔ مجھے پتا ہے تم سب کچھ پوچھنے کے بعد بھی مجھے زندہ نہیں چھوڑو گے۔ جب مجھے مرنا ہی ہے تو دیش سے غداری کر کے کیوں مروں؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’تم کتنی بھی کوشش کرلو۔ میں تم سے سب کچھ اگلواکر رہوں گا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت تک تم اپنی ایک یا دونوں آنکھوں یا ٹانگوں سے محروم ہو چکے ہوگے…۔ اچھا چلو، میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں تمہیں گولی ماروں گا نہ خنجر آزماؤں گا…۔ معلومات حاصل کرتے ہی تمہیں اس بس میں چھوڑ کر چپ چاپ چلاجاؤں گا‘‘۔
اس نے یقین سے عاری نظروں سے مجھے دیکھا۔ ’’میں تمہاری بات کا کیسے بھروسا کرلوں؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’یہ تمہاری مجبوری ہے۔ پھر بھی تمہاری تسلی کے لیے اپنے رب کی قسم کھاتا ہوں کہ اپنی زبان پر قائم رہوں گا‘‘۔
وہ میری بات سن کر اپنے شانے کا زخم دبائے گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ مجھے تیزی سے گزرتے وقت کی نزاکت کا شدید احساس تھا۔ لہٰذا میں نے سخت لہجے میں کہا۔ ’’گیان دھیان کے لیے ساری زندگی پڑی ہے جگدیش جی۔ میں مزید انتظار نہیں کر سکتا‘‘۔
اچانک اس نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ ’’میں تمہیں کچھ نہیں بتاؤں گا۔ تمہیں جو کرنا ہے کر گزرو!‘‘۔
یہ سنتے ہی میں تیزی سے آگے بڑھا اور اس کے منہ پر یکے بعد دیگرے الٹے ہاتھ کے کئی تھپڑ مارے اور اس سے پہلے کہ وہ سنبھل پاتا۔ اس کی دائیں ران کے گوشت والے حصے پر پستول کی نال رکھ کر گولی چلا دی۔ وہ حلق پھاڑ کر چلایا اور اپنی ران پکڑ کر بس کے فرش پر لوٹنے لگا۔ اس کی ران کے زخم سے خون کی ترلی بندھ گئی تھی۔ گولی اس کی ران چیرتے ہوئے پار نکل گئی تھی۔ کیونکہ مجھے وہ سیٹ ادھڑی ہوئی نظر آئی۔ جس پر وہ بیٹھا تھا۔
زخم بلاشبہ بہت گہرا اور اذیت ناک تھا۔ تاہم میں جانتا تھا کہ جان لیوا نہیں ہے۔
میں نے اپنی چادر جگدیش کی طرف پھینکتے ہوئے کہا۔ ’’گھاؤ کو دبادو۔ خون رک جائے گا۔ زخم خطرناک نہیں ہے۔ جلد طبی مدد مل جائے تو زندگی بچ جائے گی۔ میںنے ہڈی پر گولی نہیں چلائی‘‘۔
اس نے فوراً میری پیش کردہ چادر لے لی اور الٹے ہاتھ سے ران پر سختی سے لپیٹ کر خون روکنے کی کوشش کرنے لگا۔ جان جانے کے خوف نے اسے اپنا درد بھول جانے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ کسی نہ کسی چادر کو ران پر مضبوطی سے باندھنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس دوران میں میری نظریں باری باری بس کے چاروں طرف کا جائزہ لے چکی تھیں۔ بظاہر خطرے کی کوئی بات نہیں تھی۔
میں دوبارہ جگدیش کی طرف متوجہ ہوا اور گمبھیر لہجے میں بولا۔ ’’یار سمجھ میں نہیں آتا تم کیوں اپنی جان کے دشمن بنے ہوئے ہو۔ میں تمہیں نہیں مارنا چاہتا۔ لیکن تم مجھے مجبور کر رہے ہو۔ یاد رکھو۔ تم مرگئے تو تمہاری دیش بھگتی تمہارے گھر والوں کا پیٹ نہیں بھرے گی۔ زیادہ سے زیادہ بہادری کا کوئی میڈل مل جائے گا۔ اور جو تمہارے گھر میں تمہارے اپنے دروازے کی طرف نظریں جمائے تمہارا انتظار کر رہے ہوں گے؟ ذرا یہ بھی سوچو۔ اگر تم نے زبان کھول دی تو کوئی تم سے کیسے جواب طلبی کرے گا۔ اس حالت میں تو کوئی بھی زبان بند نہیں رکھ سکتا۔ زندگی بچ گئی۔ یہی بہت ہوگا۔ سوچ لو۔ اب تمہارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ خون اسی طرح بہتا رہا تو تمہیں کوئی نہیں بچا سکے گا‘‘۔
وہ گہری سانسیں لے کر اپنا درد برداشت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے میری باتیں سن رہا تھا۔ بالآخر اس نے پژمردہ لہجے میں پوچھا۔ ’’تم … تم وعدہ خلافی تو نہیں کرو گے ناں؟ مجھے گولی تو نہیں مارو گے؟‘‘۔
میں نے ٹھوس لہجے میں کہا۔ ’’ہرگز نہیں۔ اب تو تم اتنے گھائل ہو کہ میرا پیچھا نہیں کر سکتے۔ نہ ہی کسی کو اطلاع دینے کے قابل ہو۔ پھر مجھے تمہیں گولی مار کر ہلاک کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ تم جلدی جلدی بولو۔ تاکہ میں اپنی منزل کی طرف روانہ ہو سکوں اور تمہیں اسپتال پہنچایا جا سکے‘‘۔
اس نے شک بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’وعدہ کرو۔ تم مجھے ہاسپٹل پہنچانے کا بندوبست کر کے جاؤ گے ناں؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’میں پکا وعدہ کرتا ہوں۔ بلکہ قسم کھاتا ہوں کہ تمہاری اسپتال روانگی یقینی بناکر یہاں سے روانہ ہوں گا۔ اب بتاؤ تم میرے بارے میں کیا کیا جانتے ہو۔ میرے پیچھے کیوں اور کہاں سے لگے ہو؟ انبالے پہنچ کر تمہیں کیا کرنا تھا؟‘‘۔
اسے یقیناً شدید کمزوری محسوس ہو رہی ہوگی۔ لیکن پلا پلایا سانڈ ہونے کی وجہ سے وہ ابھی تک اپنے ہوش و حواس میں تھا۔ اس نے گہری سانس لے کر اپنی ہمت یکجا کی اور رک رک کر بولنے لگا۔ ’’ہم لوگوں نے ہرمندرصاحب کی فون لائنوں میں جاسوسی آلات فٹ کر رکھے ہیں اور وہاں سے کی جانے والی ہر فون کال ہم سنتے بھی ہیں اور ریکارڈ بھی کی جاتی ہے۔ وہاں سے ڈمڈمی ٹکسال کی ہوئی اس فون کال سے ہمیں پتا چلا تھا کہ ہرمندر صاحب میں خالصتان بنانے کی سازش میں مصروف سکھوں کے اڈے پر ہندی، بلکہ اردو بولنے والا کوئی خاص مہمان ٹھہرا ہوا ہے۔ جو کسی خاص مقصد کے لیے ان کے لیڈر کو بڑی رقم پہنچانے والا تھا۔ اسی کال سے ہمیں پتا چلا کہ وہ مشکوک شخص امرتسر سے کہیں باہر جانے والا ہے‘‘۔
اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔ مجھے لگا کہ اس پر غشی طاری ہو رہی ہے۔ لیکن اس وقت مجھے اس کی کیا پروا ہوتی؟ میرے دماغ میں تو دھماکے ہو رہے تھے۔ اس نے جتنا بتایا تھا۔ اس سے میرے لیے کڑی سے کڑی ملانا مشکل نہ تھا۔ میری خوش قسمتی تھی کہ خفیہ پولیس والوں نے مجھے ہرمندر صاحب سے نکلتے ہی دبوچ لینے کے بجائے میرا پیچھا کر کے میرے پورے گروہ کا قلع قمع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ یہ ان کی بدقسمتی کہ اپنے منصوبے میں وہ صرف اس لیے ناکام ہوگئے کہ ان کا بھیجا ہوا گھاگ کارندہ محض اتفاقاً میری نظروں میں آگیا تھا۔ ورنہ صرف میں ہی نہیں۔ یاسر اور ناصر اور ساتھ ساتھ رخسانہ اور جمیلہ بھی خفیہ پولیس کے شکنجے میں پھنس چکی ہوتیں۔ اور واپس آنے پر ظہیر کے لیے بھی پھندا تیار ہوتا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭