امریکہ اور کابل حکومت میں شدید اختلافات پیدا ہوگئے

محمد قاسم
امریکہ اور کابل حکومت میں اختلافات شدید ہوگئے۔ مستقبل کے سیاسی منظر نامہ میں کردار نہ ملنے پر افغان صدر اور ان حامی سیخ پا ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ نے افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا ہے۔ افغان حکومت کا کہنا ہے کہ امریکی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ زلمے خلیل زاد افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے معلومات کا تبادلہ نہیں کررہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق افغان حکومت اور امریکہ کے درمیان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے مسئلے پر شدید اختلافات پیدا ہوگئے ہیں اور دونوں جانب سے ایک دوسرے سے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ افغان حکومت کا کہنا ہے کہ زلمے خلیل زاد نے سولہ روز مذاکراتی عمل سے بے خبر رکھا اور وہ افغان حکومت کے ساتھ رابطوں سے گریز کر رہے ہیں۔ زلمے خلیل زاد طالبان کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد حامد کرزئی کو ساتھ ملا کر افغانستان میں ایسا سیٹ اپ بنانا چاہتے ہیں، جس کی سربراہی وہ خود کریں اور امریکی فوج کے انخلا سمیت دیگر معاملات حل کرنے میں مدد فراہم کریں۔ واضح رہے کہ افغان نژاد امریکی شہری زلمے خلیل زاد کا تعلق مزار شریف کے پختون خاندان سے ہے اور ان کے سابق افغان صدر حامد کرزئی سمیت سابق جہادیوں سے دیرینہ تعلقات ہیں۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت کی بنیادی وجہ ایک دوسرے پر اعتبار کرنا ہے۔ دوسری جانب افغان حکومت کے مشیر سلامتی حمد اللہ محب کو امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے طلب کرکے تنبیہ کئے جانے پر افغان حکومت کے دیگر عہدیداروں نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ زلمے خلیل زاد افغان حکومت کو نظرانداز کر رہے ہیں اور انہوں نے افغان حکومت کو سائیڈ لائن کرکے مذاکرات شروع کر دیئے ہیں۔ قطر میں ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے افغان حکومت کو مکمل معلومات فراہم نہیں کی گئیں، جس کی وجہ سے افغان حکومت کو کوئی علم نہیں کہ مذاکرات میں کیا پیشرفت ہوئی ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ زلمے خلیل زاد نے اپنی پوری ٹیم کو پابند کر رکھا ہے کہ وہ مذاکرات کے حوالے سے میڈیا اور افغان حکومت کو معلومات دینے سے گریز کریں۔ کیونکہ افغان حکومت یہ معاملات بھارت اور ایران کے ساتھ شیئر کررہی ہے، جس کے نتیجے میں مذاکرات کو ناکام بنانے کیلئے مشترکہ کوششیں کی جاسکتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق زلمے خلیل زاد نے اپنی ٹیم کو کہا ہے کہ جب تک معاہدہ نہیں ہوجاتا بیان بازی سے گریز کیا جائے۔ زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ اس ضمن میں افغان طالبان اپنے وعدے کے پابند ہیں اور وہ مذاکرات کے حوالے سے بین الاقوامی میڈیا سے کوئی بات نہیں کررہے ہیں۔ جبکہ عالمی میڈیا افغان حکومت کے حوالے سے خبریں شائع کر رہا ہیں۔ یہ وہ معلومات ہیں جو امریکی حکام نے افغان حکومت کو مذاکرات کے حوالے سے دی تھیں۔ جبکہ افغان حکام کا کہنا ہے کہ زلمے خلیل زاد طالبان کے ساتھ مل کر افغان حکومت کو نظرانداز کر رہے ہیں اور حکومت کو اس پورے مذاکراتی عمل سے باہر رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ زلمے خلیل زاد کو حامد کرزئی کی حمایت حاصل ہے، کرزئی کے کہنے پر ہی انہوں نے افغان صدر اور چیف ایگزیکٹو کو مذاکرات سے دور رکھا ہوا ہے۔ دوسری جانب زلمے خلیل زاد کا موقف ہے کہ افغان حکومت میں شامل بعض افراد امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی معلومات ایران اور بھارت کو مہیا کر رہے ہیں، جو ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ جبکہ امریکہ اور افغان طالبان نے جو پالیسی اختیار کی ہے اس کی وجہ سے مذاکرات کامیابی کی طرف جا رہے ہیں۔ دوسری جانب افغان صدارتی امیدوار اور سابق مشیر سلامتی حنیف اتمر نے افغان حکومت کے رد عمل پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت خود تو مذاکرات کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی اور اب امریکہ، طالبان کے درمیان مذاکرات میں رکاوٹیں کھڑی کررہی ہے۔ امن تمام افغانوں کی ضرورت ہے، لہذا حکومت امن کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے سے باز رہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ زلمے خلیل زاد کی کوششیں قابل تعریف ہیں اور افغانستان میں امن کیلئے ان کی خدمات یاد رکھی جائیں گی۔ اٹھارہ سال کی لڑائی کا خاتمہ آسان کام نہیں ہے اور اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے تمام سیاسی اختلافات ختم کردیں۔ دوسری جانب افغان صدر اور ان کے قریبی ساتھی مذاکرات کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ تاہم ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور جمعیت اسلامی کے سربراہ صلاح الدین ربانی نہ صرف امریکی موقف کی تائید کر رہے ہیں بلکہ وہ مستقبل میں طالبان کے ساتھ اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اگر طالبان کے ساتھ معاہدہ ہو جاتا ہے تو جولائی میں صدارتی انتخابات نہیں ہوں گے، بلکہ ایک عبوری حکومت قائم ہو گی، جس میں افغان صدر اور ان کے ساتھیوں کو زیادہ حصہ نہیں ملے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مذاکرات کی کامیابی سے قبل انتخابات کرانا چاہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment