کابینہ کے لئے مراعات کا اعلان بزدار کو لے ڈوبا

وجیہ احمدصدیقی
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے متبادل کی تلاش شروع کردی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نیا وزیر اعلیٰ بننے کی دوڑ میں میاں محمد اسلم اقبال، یاسر ہمایوں، اور سبطین خان شامل ہیں۔ لاہور سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی میاں محمد اسلم اقبال پنجاب کابینہ میں وزیر صنعت و تجارت ہیں۔ موصوف 2002ء میں بھی رکن صوبائی اسمبلی اور سیاحت کے وزیر رہے۔ جبکہ 2013ء سے 2018ء کی اسمبلی میں بھی تحریک انصاف کے رکن رہے ہیں۔ میاں اسلم اقبال تحریک انصاف میں شامل ہونے سے قبل مسلم لیگ ’’ق‘‘ سے وابستہ تھے۔ رکن صوبائی اسمبلی یاسر ہمایوں صوبائی وزیر تعلیم ہیں۔ جبکہ میانوالی کے رکن صوبائی اسمبلی سبطین خان ہیں وزیر جنگلات ہیں۔ تحریک انصاف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ عثمان بزدار وزیر اعظم کا اپنا انتخاب تھے۔ پنجاب کی وزارت علیا پر جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی اور چوہدری سرور کی نظریں بھی تھیں۔ جہانگیر ترین نااہل ہونے کی وجہ سے دوڑ سے باہر ہوگئے۔ شاہ محمود قریشی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب نہیںہو سکے اور چوہدری سرور کو خود عمران خان نے روک دیا تھا۔ علیم خان اور محمودالرشید کے علاوہ ڈاکٹر یاسمین راشد کا نام بھی لیا جارہا تھا۔ علیم خان نیب کے شکنجے میں آگئے اور محمودالرشید کو اراکین کی وہ حمایت نہیں حاصل، جس کی وزارت علیا کے لیے ضرورت ہے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کی مقبولیت اس اہم منصب کے آڑے آگئی ہے۔ ذرائع کے مطابق وزارت علیا پر گورنر پنجاب محمد سرور کی نظریں بھی ہیں۔ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوجائیں۔ لیکن وزیراعظم عمران خان اپنا فیصلہ اپنی جیب میں رکھتے ہیں۔ وہ کسی بھی مقبول اور مشہور شخص کو وزیر اعلیٰ پنجاب نہیں بنائیں گے۔ ان کا اگلا انتخاب بھی بزدار جیسا ہی کوئی ہوگا۔ ذرائع نے بتایا کہ عمران خان عثمان بزدار کی کارکردگی سے خوش نہیں تھے۔ انہوں نے جب بزدار کو فیاض چوہان کے خلاف ایکشن لینے کے لیے کہا تھا تو بزدار نے چوہان کو ڈانٹ ڈپٹ کر کے معاملہ دبانے کی کوشش کی۔ لیکن عمران خان نے کہا کہ فیاض چوہان سے وزارت لے لی جائے اور یہ فیصلہ بزدار کی مرضی کے خلاف تھا۔ ذرائع کے بقول وزیراعظم کے پاس بزدار کے خلاف پہلے دن سے ہی شکایات آرہی تھیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ان کی کارکردگی بھی مایوس کن نظر آرہی تھی۔ وہ پارٹی پالیسی کے برعکس چل رہے تھے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان اگر وزیر اعلیٰ کو ناقص کارکردگی کی بنیاد پر برطرف کرتے تو اس کا ملبہ انہی پر گرتا۔ لیکن عثمان بزدار نے مراعات کا بل منظور ہونے کی اجازت دے کر اپنی وزارت علیا کو دائو پر لگادیا۔ اس بل کوتحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ نواز لیگ کے ایم پی اے نے پیش کیا تھا۔ لیکن اسے منظور عثمان بزدار سمیت تحریک انصاف کے تمام اراکین نے کیا ہے۔ اب بھی کہا جارہا ہے عثمان بزدار اور اراکین اسمبلی اس بل سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔ وزیراعظم کو جھانسا دینے کی کوششیں جاری ہیں۔ پہلے تو اس بل کے حق میں وفاقی اور صوبائی وزرا بیانات دے رہے تھے۔ لیکن جب وزیراعظم نے یہ ٹویٹ کیا کہ ’’پنجاب اسمبلی کی جانب سے اراکین اسمبلی، وزرا خصوصاً وزیراعلیٰ کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا فیصلہ سخت مایوس کن ہے۔ پاکستان خوشحال ہوجائے تو شاید یہ قابلِ فہم ہو۔ مگر ایسے میں جب عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے بھی وسائل دستیاب نہیں، یہ فیصلہ بالکل بلاجواز ہے‘‘۔ تو اس کے جواب میں ترجمان پنجاب حکومت شہباز گل نے ٹویٹ کیا ’’میرے قائد آپ کی ایسی ہی باتوں کی وجہ سے مجھے آپ سے عقیدت ہے۔ مجھے پتہ ہے آپ اپنے بجلی گیس کے بل اور کچن تک کا خرچہ جیب سے دیتے ہیں۔ میں ذاتی حیثیت میں اس سے رنجیدہ ہوں اور خوش نہیں۔ بحیثیت ترجمان وزیراعلی میں جلد تفصیلات سے آگاہ کر رہا ہوں‘‘۔ یہی نہیں بلکہ ایک موقر اخبار نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ لاہور ایئر پورٹ کے نزدیک تعمیر شدہ ہوٹل میں شراب کی فروخت شروع ہو جائے گی۔ کیونکہ پنجاب کے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے رائل انٹرنیشنل ہوٹل کو جنوری 2019ء میں شراب کی فروخت کا لائسنس جاری کر دیاہے۔ اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ 22 سال میں کسی کو بھی شراب کی فروخت کا لائسنس لاہور میں نہیں جاری کیا گیا تھا۔ آخری لائسنس 1997میں ہالی ڈے ان کو دیا گیا۔ لاہور میں کل 5 ہوٹلوں کو شراب فروخت کرنے کی اجازت ہے۔ رپورٹ کے مطابق شراب کی فروخت کا یہ لائسنس پیر باغی شاہ کو دیا گیا ہے۔ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈائریکٹر جنرل اکرم اشرف گوندل نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی منظوری سے جاری کیا۔ پیر باغی شاہ کے پاس ملک بھر میں مختلف ایئر پورٹس کی پارکنگ اوروہاں پر قائم دکانوں کے ٹھیکے ہیں۔ ایک طرف وزیراعظم ملک کو مدینے کی ریاست بنانا چاہتے ہیں اور ان کے وزیر اعلیٰ شراب فروخت کرنے کے لائسنس جاری کرتے ہیں۔ فی الحال تو وزیر اعظم نے گورنر پنجاب چودھری سرور کو اراکین پنجاب اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کی سمری پر دستخط کرنے سے روک دیا ہے۔ وزیراعظم نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ہدایت کی ہے کہ بل دوبارہ ایوان میں لایا جائے۔ وزیراعلیٰ کو دی گئی تاحیات مراعات کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔ وزیراعلیٰ کو پوری زندگی کے لئے گھر دینے کا فیصلہ مناسب نہیں ہے۔ مراعات کا دورانیہ مدت ختم ہونے کے بعد زیادہ سے زیادہ تین ماہ کا ہونا چاہیے۔ ذرائع کے مطابق ارکان پنجاب اسمبلی کی تنخواہوں کے معاملے پر وزیراعلیٰ کی مراعات کو بل سے نکالنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ کی مراعات کو قانونی طریقے سے نئی ترمیم کے ذریعے نکالا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ حالات میں معاشی بحران سے نمٹنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ حکومت کسی صورت تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا بوجھ برداشت کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ تحریک انصاف کے ذرائع نے بتایا ہے کہ عمران خان اب اپنے ان ساتھیوں کو یاد کر رہے ہیں، جنہوں نے مشکل وقت میں ساتھ دیا تھا۔ لیکن انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے عمران خان نے جن الیکٹ ایبلز کا انتخاب کیا، وہی اب سوہان روح بن رہے ہیں۔ عمران خان نے پارٹی میں بھی پرانے لوگوں کو بحال کیا ہے۔ سیف اللہ خان نیازی چیف آرگنائزر کی حیثیت میں واپس آگئے ہیں۔ انجینئر افتخار چوہدری جو مرکزی ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات ہیں، وہ سیف اللہ نیازی کے ساتھ مل کر پارٹی کو منظم کریں گے۔ تاکہ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی جا سکے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment