پی ایس ایل کے باعث کراچی میں تجارتی سرگرمیاں بھی سخت متاثر

عظمت علی رحمانی/ اقبال اعوان
پی ایس ایل کے باعث کراچی کی تجارتی سرگرمیاں بھی متاثر ہورہی ہیں۔ میچز کے انعقاد نے لاکھوں لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ پاکستان سپر لیگ کے میچز کراچی میں ہونے کی وجہ سے جہاں بعض لوگوں میں خوشی کا سامان ہوا ہے، وہیں سندھ حکومت، شہری انتظامیہ اور ٹریفک پولیس کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے پی ایس ایل شہریوں کے بنیادی حقوق کو پامال کرتا نظر آرہا ہے۔ پاکستان سپر لیگ سیزن 4 کراچی میں جس روز سے شروع ہوا ہے اسی روز سے شائقین کرکٹ کیلئے یہ ایونٹ خوشیوں کا سبب بن رہا ہے۔ تاہم شہری انتظامیہ اور ٹریفک پولیس نے ایسی ناقص منصوبہ بندی کی ہے کہ شہر بھر کی تمام اہم شاہراہیں اور سڑکیں ایونٹ کے دوران متاثر ہورہی ہیں۔ سیکورٹی اور ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے اہم شاہراہوں کو بند کرنے سے نہ صرف نیشنل اسٹیڈیم آنے والے شائقین کرکٹ بلکہ دیگر شہریوں کو بھی بدترین ٹریفک جام کا سامنا رہتا ہے۔
پی ایس ایل میچز کے دوران پاکستان آئے ہوئے غیر ملکی کھلاڑیوں کیلئے غیر معمولی حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں، جو شہریوں کیلئے دردِ سر بن گئے ہیں۔ مرکزی سڑک شاہراہ فیصل شہر کی مصروف ترین شاہراہ ہے جہاں ہر وقت ٹریفک کی روانی رہتی ہے۔ تاہم یہی سڑک اس وقت ٹیموں کو ہوٹل سے لے کر نیشنل اسٹیڈیم اور پھر اسٹیڈیم سے ہوٹل لے جانے کا روٹ ہے۔ پی ایس ایل کے میچز شام کے اوقات میں کھیلے جارہے ہیں جن کا آغاز پاکستانی وقت کے مطابق شام 7 بجے ہوتا ہے جبکہ اس کا اختتام تقریباً رات 11 بجے ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے پولیس اہلکار دوپہر ایک بجے سے ہی بعض شاہراہوں کو شہریوں کی آمد و رفت کیلئے بند کردیتے ہیں۔ اسٹیدیم کے اطراف معمول کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تجارتی سرگرمیاں بھی شدید متاثر ہورہی ہیں۔ دوسری جانب نیشنل اسٹیڈیم کے اطراف کی 4 سڑکوں کی بندش نے عوام کو ٹریفک جام کے عذاب میں مبتلا کردیا۔ ان بند سڑکوں کی وجہ سے شہر کے 12 مقامات پر شام سے رات گئے تک بدترین ٹریفک جام ہورہا ہے۔ ادھر اسٹیڈیم اور پارکنگ کے اطراف کی 13 آبادیوں کے مکین بار بار سرچ آپریشن اور نگرانی کیلئے نفری کی تعیناتی سے تنگ آگئے ہیں۔ واضح رہے کہ اتوار کو ہونے والے فائنل میچ کیلئے سیکورٹی پلان مزید سخت بنایا جارہا ہے۔ اتوار کو شاہراہ فیصل اور دیگر سڑکوں کی بندش کا دورانیہ زیادہ ہوگا کہ اس روز غیر ملکی مہمانوں کی آمد اور روانگی کے علاوہ پی آئی ڈی سی چوک پر واقع ہوٹلوں سے اسٹیڈیم تک ٹیموں اور آفیشلز کا آنا جانا لگا رہے گا۔ پی ایس ایل میچوں کے دوران سیکورٹی کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ شہر بھر کی سڑکیں متاثر ہورہی ہیں۔ میچ شام سات بجے شروع ہوتا ہے، تاہم 6 گھنٹے پہلے ہی اسٹیڈیم کے اطراف کی 4 سڑکیں رکاوٹیں اور اہلکار کھڑے کر کے بند کردی جاتی ہیں۔ راشد منہاس روڈ پر ملینم ہال سے اسٹیڈیم، نیو ٹاؤن تھانے کے قریب نجی اسپتال کے سامنے سے اسٹیڈیم، سوک سینٹر سے اسٹیڈیم اور کارساز سے اسٹیڈیم کی سڑکیں بند کردی جاتی ہیں۔ ان سڑکوں پر واقع پیٹرول پمپ، سی این جی اسٹیشن، ہوٹل، دکانیں، مارکیٹیں بھی بند کردی جاتی ہیں اور میچ ختم ہونے کے بعد لگ بھگ 2 گھنٹے بعد معاملہ کلیئر کیا جاتا ہے۔ ایک جانب ٹریفک کا برا حال ہے اور شہری پریشان ہیں کہ کب میچوں کا ایونٹ اختتام پذیر ہو اور وہ شہر میں معمول کے مطابق شاپنگ سینٹرز اور تفریحی مقامات تک جائیں۔ دوسری جانب پی ایس ایل میچوں کے دوران سیکورٹی کی وجہ سے اسٹیڈیم کے اطراف اور پارکنگ کیلئے مختص پانچ علاقوں کے اطراف کی آبادیوں کے مکین خاص طور پر پریشان ہیں۔ سیکورٹی ادارے وہاں بار بار سرچ آپریشن کررہے ہیں۔ ان علاقوں میں تعینات پولیس کی نفری شہریوں کو چیکنگ کے بہانے تنگ کرتی ہے۔ ان آبادیوں میں عیسی نگری، ڈالمیا کالونی، مجاہد کالونی، مجید کالونی، شانتی نگر، سندھی پاڑہ، بلوچی پاڑہ، بیت المکرم مسجد کے عقب کے علاقے، مشرق سینٹر کے عقب کے علاقے، پی آئی بی کالونی، غوثیہ کالونی اور نیوٹاؤن تھانے کے عقب میں واقع آبادیوں سمیت دیگر علاقے شامل ہیں۔
’’امت‘‘ سروے کے دوران میچوں کی سیکورٹی کے باعث راشد منہاس روڈ پر واقع میلینم شاپنگ مال بھی خاصا متاثر نظر آیا۔ وہاں صرف چند دکانیں ہی کھلی تھی۔ محبوب نامی دکان دار کا کہنا تھا کہ 9 مارچ سے ایک روز قبل سے ان کا کاروبار کم ہوچکا ہے۔ خریدار یہ سوچ کر نہیں آرہے ہیں کہ شاید دکانیں بند ہوں گی۔ ڈالمیا چوک پر بریانی، گنے کے رس اور دیگر کھانے پینے کی اشیا کے دو درجن ٹھیلے والے موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں ڈالمیا روڈ پر جانے سے روک دیا گیا ہے۔ ڈالمیا روڈ پر اسٹیڈیم کی جانب جانے والے راستے پر واقع پی ایس او پمپ کھلا ہوا تھا۔ تاہم گاڑیاں موجود نہیں تھیں۔ کیشیئر محمد مشتاق کا کہنا تھا کہ میچوں کی وجہ سے صبح سے دوپہر ایک بجے تک کاروبار ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ سڑک ڈالمیا چوک سے بند کردی جاتی ہے۔ پہلے روزانہ 18 ہزار لیٹر تیل فروخت ہوتا تھا اب 3 سے 4 ہزار لیٹر فروخت ہورہا ہے۔ یہاں سے آگے واقع PARCO پمپ مکمل طور پر بند تھا۔ اسی طرح اسٹیڈیم سے آتے ہوئے ڈالمیا روڈ پر مجاہد کالونی گلی نمبر 15 سے سابقہ ڈرائیو ان سنیما کے قریب تک دکانیں اور ہوٹل بند تھے۔ یہی صورتحال اسٹیڈیم کے سامنے پی ایس او پمپ کی تھی۔ وہاں موجود منیجر عارف خان کا کہنا تھا کہ 9 مارچ سے کاروبار متاثر ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جمعرات کو پولیس نے ان کے ملازمین کو تشدد کا نشانہ بنایا جو کھلے پمپ کے باہر اکھٹے تھے۔
دوسری جانب جمعہ کی دوپہر کو ڈالمیا روڈ سے دھوراجی موڑ تک کا راستہ بھی کنٹیرز لگا کر بند کیا گیا تھا۔ جبکہ اسٹیڈیم روڈ پر فلائی اور کے نیچے النور مسجد سے پی ایس او پمپ تک دکانیں، ریستوران، ہوٹل اور میڈیکل اسٹور بند تھے۔ شاہراہ فیصل پر کارساز سے اسٹیڈیم جانے والے راستے پر تمام ذیلی سڑکیں بند تھیں۔ جبکہ کارساز مارکیٹ پر دکانیں اور ہوٹل بند رکھے گئے تھے۔ اسٹیڈیم سے سوک سینٹر تک مشرق سینٹر اور دیگر اونچی عمارتوں کے نیچے دکانیں بند تھیں۔ جبکہ رہائش پذیر افراد کو عقبی راستوں سے آنے جانے کی اجازت دی گئی۔ ایک ٹیکسی ڈرائیور اشرف کا کہنا تھا کہ ’’کراچی میں روزگار کمانا مشکل ہوچکا ہے۔ یہاں عام دنوں میں ٹریفک جام سے پر یشان ہوتے ہیں اب 9 مارچ سے اب تک روزگار مزید خراب ہوچکا ہے۔‘‘ ایک ٹھیلے والے رمضان کا کہنا تھا کہ ’’اسٹیڈیم یا پارکنگ ایریاز کے اطراف کاروبار بہت متاثر ہے۔ ٹھیلے پتارے والوں کو بھی ہٹا دیا جاتا ہے۔‘‘ 65 سالہ شہری جمیل کا کہنا تھا کہ ’’سیکورٹی ضرور لگائیں۔ تاہم اسے اسٹیڈیم تک محدود رکھیں دور دور تک سڑکیں بلاک کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘‘ 70 سالہ خالد کا کہنا ہے کہ ’’سیکورٹی کی وجہ سے ڈالمیا میں میری ٹائر پنکچر کی دکان بند کرادی گئی۔ ہم دوپہر سے رات تک انتظار کرتے ہیں کہ راستے کھلیں تو روزگار کمائیں۔‘‘ ایک پٹرول پمپ کے ملازم شاکر کا کہنا تھا کہ میچ شروع ہونے کے بعد پمپ پر سناٹا چھا جاتا ہے۔ کہ ہر قسم کی گاڑیاں پارکنگ تک محدود ہوتی ہیں۔ زاہد حسین نامی مزدور کا کہنا ہے کہ اس کی دیہاڑی متاثر ہورہی ہے۔ محمد افضل کا کہنا تھا کہ وہ رکشہ چلاتا ہے۔ آج کل ٹریفک جام اور سڑکوں کی بندش سے کام خراب ہو رہا ہے۔ پہلے وہ روزانہ 800 روپے تک کما لیتا تھا۔ آج کل دو سے تین سو روپے ملتے ہیں۔‘‘
سروے کے مطابق نیشنل اسٹیڈیم کے اطراف مارکیٹوں کی بندش کی وجہ سے درجنوں سبزی کی دکانیں، دودھ کی دکانیں متاثر ہوئی ہیں کیوں کہ سبزی اور دودھ سپلائی کا اپنا وقت ہوتا ہے جس کی وجہ سے دودھ اور سبزی لانے والی بڑی گاڑیاں راستوں کی بندش کی وجہ سے آ نہیں سکتیں۔ اس کا نقصان عام شہریوں کے علاوہ ان دکانداروں کو بھی ہورہا ہے۔
ادھر میچز کے اوقات کار میں دفتر سے گھر جانے والے یا اپنے کاروباری مقامات پر جانے والے افراد کو پہلے کافی دیر تک بند ہونے والے ٹریفک میں اپنی گاڑی کھڑی کرکے وہاں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ سوک سینٹر کے سامنے جانے والی دونوں اطراف کی سٹرک میچ کے دنوں میں گھنٹوں جام رہتی ہیں۔ ایک شہری شعیب بھٹی کا کہنا تھا کہ ’’میں کسی کام سے لیاقت آباد گیا تھا۔ واپسی پر سوک سینٹر کے سامنے سے شاہراہ فیصل جارہا تھا کہ کارساز پل کو بند کیا گیا، جس کی وجہ سے گھنٹوں ٹریفک میں پھنسا رہا ہوں۔‘‘ تحریک لبیک کے رہنما قاضی عباس کا کہنا تھا کہ ’’میں نیو کراچی میں رہتا ہوں اور شہر میں کاموں کی وجہ سے جانا ہوتا ہے۔ مگر پی ایس ایل نے سارے شیڈول متاثر کردیئے ہیں۔ پی ایس ایل نے سینکڑوں گھرانوں کا چولہا ٹھنڈا کر دیا ہے۔ کراچی جو غریب پرورشہر تھا، یہاں غریبوں کا جینا دوبھر کر دیا گیا ہے۔ چند ہزار شائقین کی خاطر لاکھوں شہریوں کو مصیبت میں ڈالا ہوا ہے۔ ٹیمیں جب اسٹیڈیم پہنچ جاتی ہیں، اس کے بعد بھی روڈ بند ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔‘‘
پی ایس ایل کی وجہ سے اسٹیڈیم کے اطراف موجود تعلیمی اداروں کو بھی شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کراچی اسکول آف آرٹ، جامعہ اردو، سرسید یونیورسٹی، انڈس یونیورسٹی کے اطرا ف بھی بری طرح ٹریفک جام رہتا ہے۔ اس حوالے سے حسنین رضا کا کہنا تھا کہ ’’میں اسکولوں میں کتابیں پہنچانے کا کام کرتا ہوں۔ میں گزشتہ کئی روز سے گلشن کے علاقے میں نہیں جا پا رہا ہوں۔ پبلشرز کا اسٹاک بھی ہمارے رائیڈرز نے اسکولوں میں پہنچانا ہے کیوں کہ سیزن بھی یہی ہے تاہم ابھی تک ہم مال سپلائی کرنے میں تھوڑا پیچھے ہیں کیوں کہ ٹریفک بری طرح جام ملتا ہے، جس کی وجہ سے رائیڈرز باہر کم نکلتے ہیں۔ پی ایس ایل کی سیکیورٹی کے نام پر عام عوام کو شدید اذیت میں ہیں۔ چند ہزار لوگوں کی تفریح کیلئے مرکزی شہر کی سڑکیں بند ہیں اور غریب شہری روزگار کی خاطر دربدر ہو رہے ہیں۔‘‘ بلدیہ ٹاؤن کے رہائشی عبدالرحمان کا کہنا تھا کہ ’’پی ایس ایل یوں تو ایک اچھا ایونٹ ہے مگر انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے شہریوں کو اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ جس دن پی ایس ایل کا میچ ہوتا ہے تو روز مرہ کی بنیاد پر گھر پہنچنے کے وقت سے تقریباً ایک گھنٹہ زائد وقت لگ جاتا ہے جو تھکاوٹ کی سب سے بڑی وجہ بن رہا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ شہرکی کوئی ایک بھی بڑی شاہراہ مصروف رہنے سے پورے شہر کی ٹریفک بری طرح متاثر رہتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب شائقین کرکٹ کو اسٹیڈیم تک لانے کیلئے گاڑیاں اور بسیں بھی مین شاہراؤں پر کھڑی کی جاتیں ہیں جس کی وجہ سے عام ٹریفک متاثر ہوتا ہے۔
شہر میں اس وقت فور اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں پی ایس ایل کے مہمانوں کو ٹھہرایا گیا ہے۔ جبکہ شہر میں اس افراتفری کے حالات میں بزنس گروپس نے کام روک رکھے ہیں جس کی وجہ سے بیرون شہروں سے آنے والے کمپنیوں کے انوسٹرز، مہمان شہر کے نجی ہوٹلوں میں بھی نہیں آرہے ہیں۔ اس حوالے سے گیسٹ ہائوس اینڈ ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر طاہر خان اوریا زئی کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں امید تھی کہ پی سی ایل کی وجہ سے بیرون شہر سے لوگ آئیں گے۔ مگر اس قدر نہیں آئے جس کا اندازہ کیا جارہا تھا۔‘‘ نجی ہوٹل کے مالک شہزاد خان کا کہنا تھا کہ ’’پی ایس ایل کے میچز پاکستان میں ہونا اچھا اقدام ہے، تاہم شہری انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی نے اسے مشکل بنادیا ہے اور پی ایس ایل کی وجہ سے تقریباً کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارا ہوٹل گلشن جمال میں واقع ہے جہاں کے راستے تقریباً بند ہیں۔‘‘
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment