علی مسعود اعظمی
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد کو نشانہ بنانے والا عیسائی دہشت گرد، اپنے ہیلمٹ میں لگے کیمرے کے ذریعے نمازیوں کے قتل عام کی ویڈیو براہ راست انٹرنیٹ پر نشر کرتا رہا۔ آسٹریلوی سفید فام برنٹن ٹرنٹ نے حملے سے قبل سوشل میڈیا پیغام میں خود کو ’’صلیبی جنگجو‘‘ (نائٹ) اور امریکی صدر ٹرمپ کا پرستار قرار دیا تھا۔ سفاک قاتل مساجد میں موجود خواتین اور بچوں پر بھی گولیاں برساتا رہا۔ مساجد میں خون کی ہولی کھیلنے کے بعد بھی کلیسائی دہشت گرد کو چین نہیں ملا تو اس نے زخمی مسلمانوں کو شہید کرنے کیلئے اسپتال پر بھی حملہ کیا تھا۔ عالمی میڈیا کے مطابق شہدا و زخمیوں کی تعداد 100 سے زائد بتائی جاتی ہے۔
آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی عیسائی دہشت گرد برنٹن ٹرنٹ نے نمازیوں کے قتل عام سے چند گھنٹے قبل اپنے فیس بک اکائونٹ پر ’’گریٹ ری پلیسمنٹ‘‘ کے نام سے نفرت انگیز منشور بھی جاری کیا، جس کے صفحات کی تعداد 73 ہے۔ اس منشور میں سفید فام قاتل نے مسلمانوں کے خلاف اپنی دلی نفرت کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ نیوزی لینڈ ہیرالڈ کی رپورٹ کے مطابق عیسائی دہشت گرد نے اپنے بارے میں بتایا ہے کہ وہ آسٹریلیا میں پیدا ہوا۔ وہ ایک سفید فام صلیبی جنگجو ہے۔ کلیسائی قاتل نے اپنے اسلام دشمن منشور میںیہ بھی لکھا ہے کہ وہ یورپ پر ماضی میں مسلمانوں کی یلغار کا انتقام لینا چاہتا ہے تاکہ مستقبل میں مسلمان یورپ کا رخ کرنا بند کردیں۔ برطانوی جریدے ڈیلی میل آن لائن نے بتایا ہے کہ برنٹن ٹرنٹ نے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ امریکی نسل پرست سیاسی رہنما کین ڈیس اوینز اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا سب سے بڑا حمایتی ہے۔ برنٹن ٹرنٹ نے منظم منصوبہ بندی کے تحت پہلے کرائسٹ چرچ کی النور مسجد میں سب مشین گن سے حملہ کرکے خواتین اور بچوں سمیت درجنوں نمازیوں کو شہید کیا۔ اس کے بعد عیسائی دہشت گرد نے کرائسٹ چرچ شہر کی جامع مسجد لین وڈ کا رُخ کیا جہاں مزید نمازیوں پر فائرنگ کردی۔ نیوزی لینڈ ہیرالڈ سے گفتگو میں ایک عینی شاہد سید مظہر الدین کے مطابق لین وڈ مسجد میں شہادتوں کی تعداد اس لئے کم رہی کہ یہاں ایک نوجوان نمازی نے جان کی پروا کئے بغیر عیسائی دہشت گرد کو دبوچ کر اس کی رائفل چھین لی تھی جس پر وہ بدحواس ہوکر مسجد سے نکل بھاگا۔ ادھر کرائسٹ چرچ کے پولیس کمشنر کا کہنا ہے کہ قاتل کو ہفتے کے روز عدالت میں پیش کردیا جائے گا۔ اس وقت اس کے خلاف چالان اور دفعات کے بارے میں پراسیکیوٹر آفس میں بحث جاری ہے۔
مقامی میڈیا نے بتایا ہے کہ دو مساجد میں 100 سے زائد نمازیوں کو شہید و زخمی کرنے والے برنٹن ٹارنٹ نے اس قتل عام کیلئے بطور خاص آسٹریلیا سے نیوزی لینڈ کا سفر کیا تھا اور خودکار رائفلوں سمیت ایمونیشن اور دھماکا خیز ڈیوائس جمع کی تھیں۔ اس نے فوجی لباس اور ہیلمٹ، بلٹ پروف جیکٹ اور ہائی ریزیولیوشن کیمرے کا بھی استعمال کیا۔ ہیلمٹ میں لگے کیمرے کی مدد سے عیسائی دہشت گرد نے 17منٹ کے قتل عام کی ویڈیو لائیو نشر کی جو دنیا بھر میں سماجی رابطوں کی سائٹس پر براہ راست دیکھی گئی۔ نیوزی لینڈ کی داخلی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ نے بتایا ہے کہ قتل عام سے چند گھنٹوں قبل اس نے سماجی رابطوں کی 12سائٹس کا استعمال کیا اور مسجد النور میں نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے آنے والے مسلمانوں کے قتل عام کی لائیو ویڈیوز نشر کیں۔ تفتیشی حکام نے تصدیق کی ہے کہ آسٹریلوی قاتل کی جانب سے تیار کی جانے والی خودکش جیکٹ بھی بر آمد کی گئی ہے جو بارودی مواد اور الیکٹرونکس ڈیوائس سے لیس ہے۔ اس خودکش جیکٹ کو ماہرین نے ناکارہ بنا دیا ہے۔ نیوزی لینڈ کے مقامی ذرائع ابلاغ نے بتایا ہے کہ مساجد میں قتل عام کی ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ قاتل نے آٹو میٹک رائفلوں کا استعمال کیا اور متعدد خواتین اور ننھے بچوں کو بھی نہیں بخشا، جس سے عیسائی دہشت گرد کی مسلمانوں کے تئیں نفرت کا اظہار ہوتا ہے۔ عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ مسجد کے اندرونی حصے میں با پردہ خواتین اور بچوں کی لاشیں بھی خون میں لت پت بکھری پڑی تھیں۔
دوسری جانب دنیا بھر اور بالخصوص مسلم ممالک میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ لائیو ویڈیو نشر کرنے والی ڈیوائس کی موجودگی کے باوجود عیسائی دہشت گرد کو بر وقت گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟ حالاں کہ قاتل کو لوکیشن اور جی پی ایس ٹریکنگ کی مدد سے پہلے حملے کے چند منٹ بعد ہی پکڑا جاسکتا تھا۔ نیویارک پوسٹ نے بتایا ہے کہ دنیا بھرمیں فیس بک اور انسٹا گرام سمیت سماجی رابطوں کی ان سائٹس کیخلاف غم و غصہ پھیل رہا ہے جن پر قاتل نے مسلمانوں کے قتل عام کی کارروائی کو لائیو ٹیلی کاسٹ کیا تھا۔ نیوزی لینڈ کی مساجد میں نمازیوں کے قتل عام کے بارے میں عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ عیسائی دہشت گرد نے خواتین اور بچوں کو بھی بڑی بے رحمی اور سفاکی سے نشانہ بنایا جس سے ایک درجن سے زیادہ خواتین اور بچے شہید ہوئے ہیں جن میں چار سالہ احمد بھی شامل ہے۔ شہید اور زخمی ہونے والوں کے لواحقین کا کہنا ہے کہ اپنی وحشیانہ کارروائی کا چند گھنٹے پہلے ہی اعلان کرنے کے باوجود آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی پولیس عیسائی دہشت گرد کو فوری پکڑنے میں ناکام رہیں۔ واضح رہے کہ عیسائی دہشت گرد برنٹن ٹرنٹ نے حملے سے قبل جاری بیان میں خود کو ’’صلیبی جنگجو‘‘ یعنی نائٹ (Knigh) قرار دیا۔ ’’نائٹ‘‘ ان صلیبی حملہ آورو ں کو کہا جاتا تھا جو سلطان صلاح الدین ایوبی سے لڑنے اور بیت المقدس پر حملوں کیلئے یورپی ممالک سے آتے تھے۔ اپنے نسل پرستانہ اور مسلم دشمنی سے بھرے ’’منشور‘‘ میں عیسائی دہشت گرد نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ آئندہ موقع ملنے پر وہ پھر ایسا ہی کرے گا۔ نیوزی لینڈ ہیرالڈ نے بتایا ہے کہ مساجد پر حملوں کیلئے کئی ماہ قبل منظم اور مربوط پلاننگ کی گئی تھی۔ عیسائی دہشت گرد نے پولیس حراست میں بتایا ہے کہ وہ77 افراد کے نارویجن قاتل آندرے بریویک سے بھی متاثر ہے اور چاہتا تھا کہ کم از کم 200 مسلمانوں کو قتل کرے ۔ اس کام کیلئے اس نے دھماکا خیز مواد سے لیس 6 کاریں بھی تیار کی تھیں تاکہ مختلف مساجد اور اسلامک کمیونٹی سینٹرز پر ان کار بم دھماکوں کی مدد سے زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کرسکے۔ نیوزی حکام نے بتایا ہے کہ قاتل نے النور مسجد اور لین وڈ جامع مسجد پر حملوں کے بعد بھی مسلمانوں پر حملوں کی کوشش کی۔ تیسرے ہدف کے طور پر اس نے کرائسٹ چرچ کے اس اسپتال پر فائرنگ کی جہاں مسلمان زخمیوں کا علاج کیا جارہا تھا۔ قاتل کی اسپتال کے اندر فائرنگ سے بھی بھگدڑ مچ گئی تھی، جس کے بعد شہر کے تمام اسپتالوں پر پہرہ بٹھا دیا گیا ہے۔ نیوزی لینڈ کے محکمہ صحت نے بتایا ہے کہ اسپتالوں کی فہرست کے مطابق 49 افراد شہید ہوئے ہیں اور 51 زخمیوں کو گولیوں کے شدید زخم آئے ہیں، لیکن ان کے نام فی الحال میڈیا میں نشر نہیں کئے گئے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے میڈیا نے تصدیق کی ہے کہ دونوں مساجد میں حملوں کے وقت ایک درجن مسلم ممالک کے باشندے موجود تھے اور بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی بھی النور مسجدمیں داخل ہونا چاہتے تھے کہ حملہ کی خبر پا کر واپس چلے گئے۔ انڈونیشی جریدے جکارتہ پوسٹ نے بتایا ہے کہ مسجد النور میں حملے کے وقت 12 انڈونیشی شہری اور بچے اندر موجود تھے جن کی خیریت کا معلوم کیا جارہا ہے۔ جبکہ دونوں مساجد میں حملوں کے دوران پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، افغانستان، امارات اور سعودی عرب سمیت متعدد ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے تشریف لائے ہوئے تھے۔ ان ممالک کے سفارت کار شہدا اور زخمیوں کی شناخت کیلئے کوشاں ہیں، لیکن نیوزی لینڈ حکام اس سلسلے میں رازداری برت رہے ہیں۔
عالمی میڈیا نے نیوزی لینڈ کی مساجد میں مسلمانوں کے قتل عام پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے اور نیوزی لینڈ کی سیکورٹی فورسز اور انٹرنل انٹیلی جنس کو واقعہ کا صریح ذمہ دار ٹھیرایا ہے کہ ایک غیر ملکی دہشت گرد حملوں کیلئے بارود، اسلحہ اور فوجی لباس سمیت نیوزی لینڈ میں داخل ہوا، لیکن اس کو کسی بھی مرحلے پر روکا نہیں جاسکا۔ عالمی میڈیا نے بتایا ہے کہ نیوزی لینڈ میں اس وقت 50 ہزار سے زائد مسلمان آباد ہیں، جن میں سے 2 ہزار کے لگ بھگ پاکستانی ہیں۔
٭٭٭٭٭