یہ 87 ہجری یعنی تابعینؒ کا مبارک زمانہ ہے۔ مسلمانوں کے عظیم قائد قتیبہ بن مسلم باہلیؒ راہ خدا میں جہاد کے لئے بخارا کی طرف جا رہے ہیں اور یہ ارادہ ہے کہ ماوراء النہر کے باقی علاقوں اور پھر چین کے لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچائیں گے، اگر انہوں نے اسلام قبول کر لیا تو ہمارے بھائی بن جائیںگے، ورنہ صلح کر کے ہمیں جزیہ دیں گے اور ہم آگے دوسرے لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں گے۔ اور اگر یہ بھی قبول نہیں تو جنگ کریں گے۔ اہل بخارا کو جب پتہ چلا کہ مسلمانوں کا لشکر آرہا ہے تو وہ جنگ کے لئے تیار ہوگئے۔
اہل بخارا کو خطرناک صورت حال کا علم ہو گیا، انہوں نے ہر طرف جنگ کا اعلان کر دیا اور اپنے آس پاس آباد قوموں کو مدد کے لئے پکارا تو ہر رنگ، نسل، زبان اور مذہب کے لوگ گروہ کی صورت میں ان کے پاس پہنچنے لگے، یہاں تک کہ ان کی تعداد لشکر اسلام سے کہیں زیادہ بڑھ گئی۔
پھر یہ لوگ جنگی ہتھیاروں سمیت میدان میں نکلے اور لشکر اسلام کے سارے راستے بند کر دیئے، یہاں تک کہ جرنیل حضرت قتیبہ بن مسلم باہلیؒ کے لئے یہ ممکن نہ رہا، کہ کسی جاسوس کو دشمن کی صفوں میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے بھیج سکیں اور نہ ہی ان میں سے کوئی شخص واپس آسکا، جنہیں دشمن کی پوشیدہ کارروائیوں کی کارگزاری کے لئے پہلے سے وہاں بھیج رکھا تھا۔
حضرت قتیبہ بن مسلمؒ نے اپنے لشکر کے ساتھ بیکند شہر کے قریب (جو ماوراء النہر کے پاس تھا) مورچہ لگا لیا، وہ یہاں جم کر بیٹھ گئے، نہ یہاں سے پیچھے ہٹتے تھے، نہ آگے جاتے تھے۔
ہر روز صبح وشام دشمن کی فوجیں نکلتی تھیں اور شام تک مسلمانوں کے لشکر کو بھگانے اور ان کے قدم اکھاڑنے کے لئے کوششیں کرتی رہتی تھیں۔ جب شام ہو جاتی تو واپس اپنے محفوظ اور مضبوط قلعوں میں چلی جاتی تھیں، یہ صورت حال مسلسل دو ماہ تک جاری رہی۔
جرنیل حضرت قتیبہ بن مسلمؒ بھی بڑے حیران تھے، انہیں کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کیا کریں، آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹ جائیں۔
اس صورت حال کی خبر تمام مسلمان شہروں میں پھیل گئی، سارے مسلمانوں کا اتنا بڑا لشکر آج غالب نہیں ہو رہا اور مسلمانوں کے اتنے بڑے قائد اپنے لشکر کے ساتھ پھنسے ہوئے ہیں۔ تمام شہروں کے امراء نے مساجد میں اعلان کردیا کہ ہر نمازکے بعد دعا کی جائے، اس حکم کو پاتے ہی مساجد دعاؤں کی آواز سے گونج اٹھیں۔
تمام مسلمان رو رو کر دعائیں کرنے لگے۔ ائمہ کرام ہر نماز میں قنوت نازلہ (یعنی وہ دعا جو آخری رکعت میں رکوع کے بعد سجدے سے پہلے اجتماعی مصیبت کے وقت پڑھی جاتی ہے) پڑھنے لگے۔
لشکر اسلام کو مدد پہنچانے کے لئے بہت سارے مسلمان میدان جنگ پر جانے کے لئے آمادہ ہوئے، ان سب کے آگے جلیل القدر تابعی حضرت محمد بن واسع ازدیؒ مجاہدانہ شان و شوکت سے جا رہے تھے۔ ہر ایک کے دل میں ایک ہی تڑپ تھی کہ لشکر اسلام کو دشمن کے قبضے سے نکال کر دم لیں گے۔
تیذر کی غداری اور قتل
دشمن نے ایک چال یہ چلی کہ مسلمانوں کے اندر ہی غدار بنانے کی کوشش کی جائے اور وہ اس میں اس طرح کام یاب ہوئے کہ حضرت قتیبہ بن مسلم باہلیؒ کا ایک عجمی جاسوس جو عقل و سمجھ داری، اور سیاست میں مشہور تھا۔
اس کا نام تیذر تھا دشمن نے اس کے ساتھ رابطہ کرکے مال و دولت کا لالچ دے کر اس کو ورغلایا کہ وہ اپنی ذہانت کو استعمال کرکے مسلمانوں کے لشکر میں پھوٹ ڈال دے اور ایسی کوئی تدبیر کرے کہ مسلمان لڑے بغیر علاقہ چھوڑ کر واپس چلے جائیں۔
مال و دولت کی پیش کش دیکھ کر تیذر پر لالچ کا غلبہ ہوا اور یہ لالچ ہی دنیا و آخرت دونوں کو تباہ کردیتی ہے، وہ سیدھا جرنیل حضرت قتیبہ بن مسلم باہلیؒ کے پاس گیا۔ ان کے ہاں مسلم کمانڈروں اور اہل شوریٰ مشورے کے لئے بیٹھے ہوئے تھے وہ بے دھڑک اجازت لئے بغیر جرنیل کے پہلو میں جا بیٹھا۔
پھر جھک کر ان کے کان میں کہا مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے ہو سکے تو آپ مجلس ختم کردیں، جرنیل نے اہل مجلس کو چلے جانے کا اشارہ کیا، لیکن صرف ضرار بن حصنین کو اپنے پاس روک لیا۔
تیذر جاسوس نے بڑے رازدارانہ انداز میں جرنیل سے کہا:
ترجمہ:’’ جناب میرے پاس آپ کے لئے بہت اہم خبریں ہیں۔‘‘
جرنیل نے کہا:
ترجمہ:’’ جلدی کیجئے( بتائیے کون سی خبریں ہیں)‘‘
تیذر نے کہا:
ترجمہ:’’ امیرالمؤمنین نے دمشق کے اندر گونر حجاج بن یوسف کو اس کے عہدہ سے ہٹا دیا اور اس کے ساتھ، ان تمام امیروں کو بھی ان کے عہدوں سے ہٹا دیا ہے جو حجاج کے ماتحت کام کرتے تھے۔ اور ان ہٹائے جانے والوں میں آپ کا نام بھی ہے۔‘‘
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭