امام احمد بن حنبلؒ اپنے گھر والوں سے امام شافعیؒ کے علم و فضل اور تقویٰ وپرہیز گاری کے بارے میں کثرت سے بیان کیا کرتے تھے۔ ایک دن امام احمدؒ نے امام شافعیؒ کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ امام شافعیؒ تشریف لائے اور رات کا کھانا تناول فرما کر مہمانوں کے کمرے کا رخ کیا اور فوراً ہی بستر پر لیٹ گئے۔
امام احمدؒ کی صاحبزادی نے صبح اپنے والد محترم سے عرض کیا: ’’ ابا جان! کیا یہ وہی امام شافعی ہیں جن کے متعلق آپ ہمیں بکثرت بتایا کرتے ہیں؟‘‘
امام احمد حنبلؒ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘
صاحبزادی نے عرض کیا: ’’ میں نے ان میں تین ایسی باتیں دیکھی ہیں جن پر مجھے تعجب ہوا ہے۔‘‘ امام احمد نے پوچھا: ’’ کون کون سی؟‘‘
بیٹی نے کہا: ’’ پہلی یہ کہ جب ہم نے رات کا کھانا دسترخوان پر لگایا تو انہوں نے خوب پیٹ بھر کر کھانا تناول فرمایا۔ دوسری یہ کہ کھانا تناول فرماکر وہ مہانوں کے کمرے میں تشریف لے گئے اور بستر پر لیٹ گئے۔ رات کو نہ تو انہوں نے قیام اللیل کیا نہ ہی تہجد کی نماز پڑھی۔ اور تیسری بات یہ کہ فجر کی نماز بغیر وضو پڑھی۔ پانی کا جو لوٹا ان کے وضو کیلئے رکھا گیا تھا اس کو انہوں نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔‘‘
امام احمدؒ نے بیٹی کی تنقید بھری گفتگو سنی تو امام شافعیؒ سے ان تین امور سے متعلق استفسار چاہا۔
امام شافعیؒ نے فرمایا ’’ اے احمد! میں نے زیادہ کھانا اس لئے تناول کیا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ آپ کا کھانا حلال روزی سے ہے اور آپ کریم بھی ہیں، اور کریم کا کھانا علاج ہوتا ہے، جبکہ بخیل کا کھانا مرض ہے اور میں نے آسودہ ہونے کیلئے زیادہ کھانا نہیں کھایا بلکہ میرے زیادہ کھانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے کھانے سے اپنا علاج کروں۔
جہاں تک یہ بات ہے کہ میں نے قیام اللیل (تہجد) نہیں کیا تو دراصل جب میں نے اپنا سر تکیے پر سونے کیلئے رکھا، رسول اقدسؐ کی بعض احادیث میرے ذہن میں آگئیں۔ میں نے ان پر غور و فکر شروع کیا اور ان سے 72 فقہی مسائل کا استنباط کیا، جن سے مسلمان استفادہ کر سکتے ہیں، اس لئے مجھے قیام اللیل کی فرصت نہ مل سکی۔
اور جہاں تک بغیر وضو نماز پڑھنے کی بات ہے تو سنو! ’’خدا کی قسم! میں پوری رات جاگتا رہا۔ نیند میری آنکھوں سے مکمل دور رہی اور تجدید وضو کی ضرورت نہیں پڑی۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے عشاء کے وضو سے ہی فجر کی نماز پڑھی ہے۔‘‘
یہ تھی ائمہ سلف کی پاکیزہ زندگیوں کی ایک جھلک!
٭٭٭٭٭