خلاصۂ تفسیر
اے ایمان والو! تم میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بنائو کہ ان سے دوستی کا اظہار کرنے لگو (یعنی گودل سے دوستی نہ ہو، مگر ایسا دوستانہ برتائو بھی مت کرو) حالانکہ تمہارے پاس جو دین حق آچکا ہے، وہ اس کے منکر ہیں (جس سے ان کا دشمن ِ خدا ہونا معلوم ہوا) رسول ؐ کو اور تم کو اس بنا پر کہ تم اپنے پروردگار خدا پر ایمان لے آئے شہر بدر کرچکے ہیں (یہ بیان ہے تمہارے دشمن ہونے کا یعنی وہ صرف خدا کے دشمن نہیں، تمہارے بھی دشمن ہیں، غرض ایسے لوگوں سے دوستی مت کرو) اگر تم میرے راستے میں جہاد کی غرض سے اور میری رضامندی ڈھونڈھنے کی غرض سے اپنے گھروں سے نکلے ہو(کفار کی دوستی جس کا حاصل کفار کی رضامندی کی فکر ہے اور یہ حق تعالیٰ کی رضا جوئی اور اس کے مناسب اعمال کے منافی ہے) تم ان سے چپکے چپکے دوستی کی باتیں کرتے ہو (یعنی اول تو دوستی ہی بری چیز ہے، پھر خفیہ پیغام بھیجنا جو خصوصی ربط و تعلق کی علامت ہے، یہ اور زیادہ برا ہے) حالانکہ مجھ کو سب چیزوں کا خوب علم ہے، تم جو کچھ چھپا کر کرتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو (یعنی مثل دوسرے مواقع مذکورہ کے یہ امر بھی ان کی دوستی سے مانع ہونا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کو ہر چیز کی خبر ہے)
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭