ام انمار حضرت خبابؓ کے لیے اپنے بھائی سباع سے کچھ کم سنگ دل نہ تھی۔ ایک روز اس نے رسول اکرمؐ کو حضرت خبابؓ کی دکان کی طرف سے گزرتے اور ان سے بات کرتے دیکھ لیا۔ وہ غصے سے دیوانی ہو گئی۔ اب وہ روزانہ ان کے یہاں آتی اور بھٹی میں سے دہکتا ہوا لوہا ان کے سر پر رکھ دیتی۔ ان کا سر جلنے لگتا ا ورہ بے ہوش ہو کر گر جاتے اور افاقہ ہونے پر اس کے اور اس کے بھائی کے حق میں بددعا کرتے۔
جب رسول اکرمؐ نے صحابہ کرامؓ کو ہجرت مدینہ کی اجازت مرحمت فرمائی تو حضرت خبابؓ نے بھی اس کی تیاری کر لی۔ لیکن انہوںنے مکہ کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک حق تعالیٰ نے ام انمار کے حق میں ان کی بددعا کو قبول نہیں کر لیا۔ وہ شدید قسم کے درد سر میں مبتلا ہو گئی۔ ایسے درد میں جس کی تکلیف نا قابل برداشت تھی اور جس کی مثال کبھی سننے میں نہیں آئی تھی۔ وہ شدت درد کے مارے کتے کی طرح چیختی تھی۔ اس کے لڑکے مختلف جگہوں پر اس کا علاج کراتے پھرے، مگر کہیں افاقے کی کوئی صورت نہ نظر آئی۔ ان میں سے ایک نے بتایا کہ اس درد سے نجات کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ اس کے سر کو برابر آگ سے داغا جاتا رہے۔ اطبا کی ہدایت کے مطابق اس کے سر کو گرم لوہے سے داغا جانے لگا۔ اس سے اس کو اتنی شدید قسم کی تکلیف ہوتی کہ وہ اپنے درد سر کی تکلیف کو بھول جاتی۔
مدینہ میں انصار کی مہمان نوازی اور ان کے لطف و کرم سے حضرت خبابؓ نے اس سکون و راحت کا مزہ چکھا، جس سے وہ مدت دراز تک محروم رہے۔ یہاں آ کر نبی کریمؐ کے قرب و دیدار سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں اور اب ان کے سکون کو پراگندہ اور ان کے اطمینان کو منتشر کرنے والی کوئی چیز نہ تھی۔ وہ رسول اکرمؐ کے ساتھ معرکہ بدر میں شریک ہوئے اور ان کے زیر علم انہوں نے مشرکین کے قتل میں حصہ لیا۔ نیز انہوں نے رسول اکرمؐ کی معیت میں جنگ احد میں بھی شرکت کی او وہاں ام انمار کے بھائی سباع بن عبد العزیٰ کی شیر خدا حضرت حمزہؓ بن عبد المطلب کے ہاتھوں میدان جنگ میں زمین پر پچھڑا ہوا اور خون میں لت پت دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں۔
حضرت خبابؓ نے طویل عمر پائی۔ انہوں نے چاروں خلفائے راشدینؓ کا مبارک مثالی زمانہ دیکھا اور ان کے زیر سایہ عزت و شہرت کی زندگی گزاری۔ ایک دن وہ حضرت عمر بن خطابؓ کے عہد خلافت میں ان کے پاس پہنچے تو خلیفہؓ نے ان کے ساتھ نہایت عزت و احترام کا برتائو کیا۔ ان کو اونچی جگہ پر بٹھایا اور ان سے فرمایا: ’’بلالؓ کے سوا اس جگہ پر بیٹھنے کا مستحق تم سے زیادہ دوسرا کوئی نہیں ہے‘‘۔ پھر ان سے مشرکین کے ہاتھوں جھیلی ہوئی سب سے زیادہ دردناک اور تکلیف دہ اذیت کے بارے میں دریافت کیا۔ پہلے تو وہ جواب دینے سے ہچکچائے، مگر حضرت عمرؓ کے شدید اصرار پر انہوں نے اپنی پیٹھ سے چادر سرکا دی۔ حضرت عمرؓ اسے دیکھ کر چونک اٹھے اور بولے، یہ کیسے ہوا؟ تو حضرت خبابؓ نے بتایا کہ ایک دن مشرکین نے آگ جلا کر انگارے تیار کیے، پھر انہوں نے میرے جسم سے کپڑے اتار دیئے اور مجھے ان انگاروں پر لٹا کر گھسیٹتے رہے، یہاں تک کہ میری پیٹھ کا گوشت ہڈیوں سے الگ ہو گیا اور جسم سے نکلی ہوئی چربی نے ان انگاروں کو سرد کر دیا۔
حضرت خبابؓ نے پہلے افلاس اور تنگ دستی کی زندگی گزاری تھی، لیکن اپنی عمر کے آخری نصف حصے میں وہ کافی مالدار ہو گئے تھے۔ وہ اس قدر سیم و زر اور مال و دولت کے مالک تھے کہ شاید اس کا تصور انہوں نے خواب و خیال میں بھی نہ کیا ہو گا۔ لیکن انہوں نے اس مال میں اس طرح تصرف کیا کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ انہوں نے اپنی دولت گھر کے ایک حصے میں رکھ دی تھی، جس کو تمام حاجت مندوں اور سارے فقرا و مساکین جانتے تھے۔ انہوں نے نہ تو اس مال کی حفاظت و نگرانی کا کوئی نظام رکھا نہ اس پر تالا لگایا۔ ضرورت مند اس میں سے جتنا چاہتے لے جاتے، اس کے باوجود ہمیشہ اس اندیشے میں مبتلا اور اس بات سے خوفزدہ رہتے کہ اس سے مال کا حساب لیا جائے گا اور اس کے سبب سے ان کو عذاب دیا جائے گا۔
ان کے ساتھیوں کا بیان ہے کہ ہم لوگ حضرت خبابؓ کے مرض الموت میں ان کی عیادت کے لیے گئے تو انہوں نے کہا کہ اس جگہ اسی ہزار درہم ہیں اور خدا کی قسم نہ تو میں نے اس پر کبھی کوئی روک ٹوک کی، نہ کبھی کسی کو اس میں سے لینے سے منع کیا، پھر بولے کہ ’’میرے بہت سے ساتھی اس طرح دنیا سے گزر گئے کہ انہوں نے اپنے اعمال کا کوئی دنیاوی فائدہ نہیں حاصل کیا۔ لیکن میں زندہ رہا اور اس قدر دولت و جائیداد میرے ہاتھ آئی کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ میرے اعمال کا اجر نہ ہو‘‘۔
جب حضرت خبابؓ کا انتقال ہو گیا اور وہ اپنے رب رحیم و کریم کے جوار رحمت میں پہنچ گئے تو امیر المومنین حضرت علیؓ بن ابی طالب نے ان کی قبر پر کھڑے ہو کر فرمایا: ’’حق تعالیٰ خبابؓ پر رحم فرمائے۔ انہوں نے بہ رضا و رغبت اسلام قبول کیا، اپنی خوشی سے ہجرت کی اور ایک مجاہد کی زندگی گزاری۔ اور حق تعالیٰ اچھا عمل کرنے والے کا اجر ضائع نہیں کرتا‘‘۔
٭٭٭٭٭