حضرت جنید بغدادیؒ کے اخلاق کریمانہ کا یہ حال تھا کہ دوست اور دشمن، مسلم اور غیر مسلم، جاہل اور عالم، غرض ہر طبقے کے لوگ آپؒ کی بلند کرداری کے قائل تھے۔ آپؒ کی اعلیٰ ظرفی کا یہ عالم تھا کہ جس شخص نے اذیت پہنچائی، آپؒ نے اسے اپنی دعاؤں سے سرفراز کیا۔ مگر حضرت جنید بغدادیؒ اپنے مریدوں کی تربیت کے معاملے میں بہت سخت تھے۔ اکثر فرمایا کرتے تھے:
’’ کسی کو مرید کرنا بہت آسان ہے مگر اس کی نگرانی کرنا بہت مشکل۔‘‘
یہی وجہ ہے حضرت جنید بغدادیؒ ہر کس و ناکس کو اپنے حلقۂ ارادت میں شامل نہیں فرماتے تھے۔ ایک بار ایک مال دار شخص آپؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست گزار ہوا کہ اسے بیعت سے سرفراز کیا جائے۔
جواب میں حضرت جنید بٖغدادیؒ نے فرمایا’’ یہ راستہ بہت مشکل ہے۔‘‘
اس شخص نے عرض کیا ’’ اب اس راستے کے سوا مجھے کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا’’ تیرا دعویٰ عمل کی دلیل چاہتا ہے۔‘‘
وہ شخص خاموش ہوگیا اورآپؒ کی خانقاہ کے ایک گوشے میں کسی گدا گر کی طرح جا پڑا۔
کچھ دن بعد حضرت جنید بغدادیؒ نے اس شخص سے پوچھا’’ یہ درویشی کی منزل ہے۔ یہاں اہل زر کا گزر ممکن نہیں۔‘‘
وہ شخص اٹھا اور اپنا سارا مال و متاع لے کر حضرت جنید بغدادیؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا’’ یہ سب کچھ آپ کی نذر ہے۔‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ نے ناخوشگوار لہجے میں فرمایا’’ میں دولت کی نفی کرتا ہوں اور تو مجھے سیم و زر کے دام میں الجھاتا ہے۔‘‘
’’ پھر میںکیا کروں؟‘‘ شدت جذبات میں وہ شخص رونے لگا۔’’ مجھے بہرحال آپ کی قربت و محبت درکار ہے۔‘‘
’’ سونے چاندی کے ان سکوں کو ضرورت مندوں میں تقسیم کردے۔‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا۔
اس شخص نے خوشی خوشی اپنی تمام دولت غریب لوگوں میں بانٹ دی۔
کچھ دن بعد حضرت جنید بغدادیؒ نے اس شخص سے پوچھا’’ اب تیری ملکیت میں کیا باقی رہ گیا ہے؟‘‘
جب اس شخص نے اعتراف کیا کہ ابھی اس کا ایک گھر باقی ہے تو حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا’’ اسے بھی فروخت کردے اور ساری رقم میرے پاس لے آ!‘‘
اس شخص نے اپنا گھر فروخت کر کے حاصل شدہ رقم حضرت جنید بغدادیؒ کی خدمت میں پیش کردی اور حکم شیخ کا انتظار کرنے لگا۔
’’ اس ساری دولت کو دریائے دجلہ میں ڈال دے۔ ‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا۔
دولت کو دریا میں ڈال دینا ایسا ہی تھا کہ جیسے کوئی شخص اپنے سرمائے کو اپنے ہاتھ سے آگ لگا دے۔ وہ شخص کہہ سکتا تھا کہ شیخ! اس طرح تو یہ ساری رقم رائیگاں جائے گی۔ اگر آپ حکم دیں تو اسے بھی ضرورت مندوں میں تقسیم کر دوں، مگر اس شخص نے ایک لمحے کیلئے بھی نہ ایسا سوچا اور نہ پیر و مرشد سے مزید کوئی سوال کیا۔ سیدھا خانقاہ سے اٹھا اور تمام رقم لے جا کر دریائے دجلہ میں پھینک دی۔
اس کے بعد حاضر خدمت ہو کر عرض کرنے لگا’’شیخ! اب میرے لئے کیا حکم ہے؟’’
‘‘اب تمہارے پاس لٹانے کو کچھ نہیں۔‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا: ’’اس لئے تم واپس جاؤ۔‘‘
حاضرین مجلس کا خیال تھا کہ پیرو مرشد کی بات سن کر وہ شخص بدحواس ہوجائے گا اور شکایت آمیز لہجے میں کہنے گا کہ اب اس کا گھر ہے نہ در، پھر ایسے میں وہ کہاں جائے؟ مگر خلاف توقع اس کے چہرے پر پریشانی کا ہلکا سا عکس تک نہیں ابھرا، بلکہ پورے اطمینان کے ساتھ کہنے لگا:
’’ابھی تو میرے پاس لٹانے کے لئے میری جان کا سرمایہ موجود ہے، جسے لٹا دوں گا تو پھر کہیں اور جانے کے بارے میں سوچوں گا۔‘‘
پھر وہ شخص ہمہ وقت حضرت جنید بغدادیؒ کی خدمت میں حاضر رہتا۔ حضرت شیخؒ ناپسندید گی کا اظہار فرماتے، مگر وہ آپؒ کے قدموں میں پڑا رہتا۔ کئی بار آپؒ نے اسے خانقاہ سے نکال دیا تو وہ دروازے پر پتھر کے ستون کی طرح جم گیا۔
مختصر یہ کہ حضرت جنید بغدادیؒ نے کئی سال تک اس شخص کو آزمایا، مگر وہ اپنی طلب میں سچا تھا۔ آخر ایک دن حضرت جنید بغدادیؒ نے اسے اپنے حلقہ ارادت میں شامل کر لیا اور فرمایا:
’’ایسی ہی لطف رکھنے والے منزل عشق کے مسافر ہوتے ہیں، تم اپنے جذبوں کی شیطان سے حفاظت کرنا۔‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭