جنگی جرائم کی تحقیقات میں امریکہ رکاوٹ بن گیا

نذر الاسلام چودھری
امریکا افغانستان میں جنگی جرائم کی وارداتوں کی تحقیقات میں رکاوٹ بن گیا۔ عالمی عدالت انصاف کے ججز اور پراسکیوٹرز تحقیقات کیلئے امریکہ اور کابل آنا چاہتے ہیں۔ تاہم نہ صرف واشنگٹن نے انہیں ویزے دینے سے انکار کیا ہے بلکہ امریکی صدر ٹرمپ کے حکم پر اشرف غنی حکومت نے بھی انہیں افغانستان کے ویزے دینے سے انکار کردیا ہے، جس کے بعد افغانستان میں امریکی افواج کے جنگی جرائم کی تحقیقات میں بڑی اڑچن پیدا ہوگئی ہے۔ افغانستان میں 18سالہ جنگ کے دوران ہزاروں شہریوں کی ہلاکتوں اور جنگی جرائم کی وارداتوں میں ملوث امریکی و اتحادی فوجیوں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنے پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ واضح رہے کہ امریکا ’’انٹرنیشنل وار کرائم کورٹ‘‘ کا رکن نہیں ہے۔ لیکن افغانستان میں امریکی فوجیوں اور سی آئی اے ایجنٹس کیخلاف جنگی جرائم کی وارداتوں کی تحقیقات شروع ہوئیں تو امریکی فوجیوں اور خفیہ ایجنٹس کی شامت آسکتی ہے۔ یہی وجوہات ہیں کہ امریکا انٹرنیشنل وار کرائم کورٹ کی شدید مخالفت کررہا ہے اور ساتھ میں اتحادی ممالک کو بھی انٹرنیشنل وار کرائم کورٹ کیخلاف ابھار رہا ہے۔ کیونکہ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک جرمنی، فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ اور دیگر ممالک کی افواج نے افغانستان میں ہزاروں بے گناہ شہریوں کا بلا وجہ قتل کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی اجازت کے ساتھ انٹرنیشنل کرائم کورٹ کے تحقیقات کار 2002ء سے افغانستان میں جنگی جرائم کی وارداتوں کی تحقیقات اور ملوث افراد سے تفتیش سمیت غیر جانبدار انکوائری کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن امریکا اس کی شدید مخالفت کررہا ہے۔ یو ایس اے ٹوڈے کے مطابق امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے دھمکی دی ہے کہ اگر عالمی عدالت انصاف نے امریکا کے تئیں اپنا رویہ اچھا نہیں بنایا تو اس پر مالی قدغن لگائی جائے گی۔ امریکا اس ادارے کیلئے ہر قسم کی مالی امداد کو بند کرے گا اور اتحادیوں سے بھی اسی قسم کی پابندیاں عائد کرنے کی درخواست کرے گا۔ مائیک پومپیو کے مطابق جب امریکی عہدیداروں اور سرکردہ افراد کیخلاف عالمی پابندیاں یا تفتیش کادبائو آئے گا تو ہمارے لوگ اپنا کام درست طریقہ پر نہیں کرسکیں گے۔ ادھر امریکا کی جانب سے افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات کی راہ میں روڑے اٹکانے کی تصدیق پر عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شدید مذمت کی گئی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ امریکی بیان اور دھمکیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ امریکی اداروں کیلئے احتساب کا عمل نہیں چاہتے۔ امریکا کی جانب سے عالمی عدالت انصاف سے جڑے افراد پر پابندیوں کا مطلب یہی ہے کہ وہ تشدد اور قتل عام کی وارداتوں جیسے جرائم پر کوئی ایکشن نہیں چاہتے۔ حقوق انسانی کیلئے کارگزار ایک اور تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی عالمی عدالت انصاف کیخلاف امریکی اقدامات کو معاندانہ قرار دیا ہے۔ عالمی جریدے مڈل ایسٹ مانیٹر نے بھی امریکا کی جانب سے جنگی جرائم کی عالمی عدالت انصاف کے تحقیق کاروں اور پراسکیوٹرز کو افغانستان کے ساتھ ساتھ امریکا میں داخلے کی اجازت سے انکار کو سنگین قرار دیا ہے۔ جریدے نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ امریکا میں عالمی عدالت انصاف کے پراسکیوٹرز کے داخلہ پر پابندی کی مدد سے ایک تیر سے دو شکار کئے ہیں۔ ایک جانب امریکا کے انکار سے ان تمام امریکی سابق و موجود فوجیوں اور سی آئی اے ایجنٹس سے تفتیش کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوجائے گی تو دوسری جانب یہی تفتیش کار فلسطین میں جنگی جرائم میں ملوث اسرائیلی افواج سے بھی تفتیش نہیں کرسکیں گے۔ اس طرح افغانستان اور فلسطین میں جنگی جرائم کی سنگین وارداتوں اور بالخصوص قیدیوں اور خواتین سے زیادتیوں کی تحقیقات مکمل نہیں ہو سکیں گی۔ الجزیرہ کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ عالمی عدالت انصاف (آئی سی سی) کی خاتون پراسکیوٹر فاتو بن سودہ نے آئی سی سی ججوں کو درخواست دے کر افغانستان میں جنگی جرائم کی وارداتوں کی جامع تحقیقات کی اجازت حاصل کی تھی۔ لیکن امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے ہفتے کے روز کو ایک بیان میں عالمی عدالت انصاف کے پراسکیوٹرز، تحقیق کاروں اور ججوں کو امریکا سمیت افغانستان میں داخلے کی جازت دینے سے انکار کردیا ہے۔ مائیک پومپیو نے دعویٰ کیا ہے کہ عالمی عدالت انصاف کا اقدام امریکا کی قانونی حکمرانی کے اصولوں کی خلاف ورزی کے مترادف ہے، جس کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ آئی سی سی کی پراسکیوٹر فاتو بن سودہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغانستان میں امریکی افواج کے اہلکاروں سمیت سی آئی اے اور خود افغان فورسز اورانٹیلی جنس انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہیں۔ الجزیرہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں جنگی جرائم کی وارداتوں کی تحقیقات کے حوالے سے امریکا کی عالمی عدالت انصاف کے ساتھ منتقم مزاجی اور دشمنانہ رویہ نیا نہیں ہے۔ ماضی میں بھی امریکی افواج اور حکومت عالمی عدالت انصاف کے ساتھ عدم تعاون کے رویہ پر مبنی پالیسی اپنائے رہی۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے نے 2018ء میں افغانستان میں سویلین ہلاکتوں کے حوالے سے بتایا تھا کہ 2018ء کا سال گزشتہ دو دہائیوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کے حوالہ سے انتہائی خطرناک رہا ہے جس میں گیارہ ہزار سے زیادہ ہلاکتیں رونما ہوئی ہیں اور ان میں ایک ہزار بچے بھی شامل ہیں۔ غیر جانب دار تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ تمام سویلین ہلاکتیں امریکی اور افغان فورسز کی اندھادھند کارروائیوں اور فضائی حملوں میں ہوئی ہیں۔ تازہ واردات11مارچ کو ہوئی ہے جس میں امریکی فضائی حملوں میں 22 عام افغان شہری شہید ہوئے ہیں۔ امریکی حکام کی ہر ممکن کوشش ہے کہ آئی سی سی کی تحقیقات سے امریکی شہریوں، سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں اور خفیہ ایجنٹس سمیت اتحادی ممالک کے افراد کو بچایا جائے۔ اس کام کیلئے امریکی حکومت ہر حد تک جائے گی۔ واضح رہے ہے کہ کچھ عرصہ قبل فاتو بن سودا کے ایک بیان کے مطابق افغانستان میں سی آئی اے ایجنٹس نے خفیہ عقوبت خانے بنا کر انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور اس بات کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment