اقبال اعوان
میئر کراچی وسیم اختر ایمپریس مارکیٹ کے احاطے میں 50 سال سے قائم مصلیٰ کے نشانات مٹانے پر تل گئے ہیں اور مارکیٹ کے اطراف مجوزہ پارک میں مسجد بنانے کو تیار نہیں ہیں۔ جمعرات کے روز پولیس اور سٹی وارڈن کے ذریعے دوسری مرتبہ مصلے کی جگہ شہید کرا دی گئی۔ یہاں نماز پڑھنے والوں کو جیل بھجوانے کے دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ نمازیوں کا کہنا ہے کہ قدیم مصلے کے قانونی کاغذات نہیں بنوائے تھے۔ لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کا میئر فرعون بن جائے گا۔ یورپ میں عیسائی دہشت گرد مساجد پر حملے کرکے مسلمانوں کو شہید کررہے ہیں اور میئر کراچی گوروں کی تعمیر کردہ ایمپریس مارکیٹ کو خوبصورت بنانے کیلئے نماز کی جگہ ختم کرنے کے درپے ہیں۔ نمازیوں نے جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام سمیت دیگر مذہبی جماعتوں اور تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ قدیم مصلے کو بچانے کیلئے ان کا ساتھ دیں۔ نمازیوں کا کہنا ہے کہ اگر اس مسئلے پر خاموشی اختیار کی گئی تو شہر میں مساجد اور مدارس کو شہید کرنے کا سلسہ شروع ہوجائے گا۔ صدر کے دکانداروں نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پارک کی تعمیر کیلئے ایمپریس مارکیٹ کے اطراف کی جگہ ہموار کی جارہی ہے۔ اگر پارک میں مسجد کی جگہ نہیں رکھی گئی تو بھرپور احتجاج کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ نومبر میں ایمپریس مارکیٹ کے اطراف آپریشن کے دوران عمر فاروق مارکیٹ میں 50 سال سے زائد عرصے سے قائم مصلیٰ بھی شہید کردیا گیا تھا، جس پر دکاندار شدید احتجاج کرتے رہے تھے۔ تاجروں کے احتجاج روکنے کیلئے میئر کراچی نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ایمپریس مارکیٹ کے اطراف پارک بنائیں گے اور اس میں مصلے کے مقام پر مسجد معراج تعمیر کرائیں گے۔ گزشتہ جمعرات کو میئر کراچی وسیم اختر نے ایمپریس مارکیٹ کا دورہ کیا۔ اس موقع پر وہ مارکیٹ کے اندرونی حصے میں بلدیہ کے اہلکاروں اور پولیس کی ملی بھگت سے قائم دکانیں اور پتھارے دیکھ کر برہم ہوگئے۔ دکانداروں نے واضح کردیا کہ جب تک مناسب جگہ نہیں ملے گی وہ یہاں سے نہیں جائیں گے۔ اس پر میئر نے سارا غصہ مارکیٹ کے باہر مصلے پر نکالا اور سٹی وارڈن اور پریڈی پولیس کی مدد سے نماز کی جگہ ختم کرادی۔ اس موقع پر نمازیوں کو گرفتار کرواکر مقدمات قائم کرانے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ دکانداروں کا کہنا ہے کہ نومبر میں آپریشن کے بعد مصلے کی جگہ دوبارہ فرش کرکے اور اطراف میں سیمنٹ کے بلاک لگا کر نماز کیلئے عارضی جگہ بنائی گئی تھی۔ یہاں تین صفوں میں 35 سے زائد افراد نماز ادا کرتے تھے۔ ایمپریس مارکیٹ کے دکاندار اقبال کاکڑ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ پچیس سال سے یہاں نماز ادا کررہے تھے۔ جمعرات کے روز جب دوسری مرتبہ مصلے پر دھاوا بولا گیا تو انہوں نے میئر کراچی کو کہا تھا کہ مذہبی معاملے میں طاقت استعمال نہ کرو۔ اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ اقبال کاکڑ نے بتایا کہ جو شخص وہاں نماز پڑھا رہا تھا اس کو پولیس لے گئی تھی۔ میئر نے اپنے عملے کو ہدایت دی ہے کہ اس جگہ کوئی نماز پڑھتا یا پڑھاتا نظر آئے تو اس کو پولیس کے حوالے کردیا جائے۔ اس دن کے بعد سے نمازی نہیں آرہے ہیں اور دو روز سے نماز نہیں ہورہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میئر کراچی نے پہلے مصلے کو بحال کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اب کہا کہ سندھ حکومت نے 5 کروڑ کی پہلی قسط دی ہے، جس سے مارکیٹ کے اطراف خوبصورت پارک بنایا جائے گا۔ لیکن پارک کے نقشے میں کوئی مسجد نہیں ہے۔ اقبال کاکڑ نے بتایا کہ نمازی اس مصلے کو بحال کرانے کیلئے مذہبی جماعتوں سے رابطہ کر رہے ہیں اور ہر صورت پارک میں مسجد تعمیر کروا کے دم لیں گے۔ نمازی ابرار کا کہنا تھا کہ میئر کراچی مصلیٰ شہید کر کے فخر سے کہہ رہے ہیں کہ اس جگہ کی خوبصورتی کے لئے صرف پارک تعمیر ہوگا، کیا انہیں خوف خدا نہیں ہے۔ نیوزی لینڈ میں گورے مساجد میں فائرنگ کرکے نمازیوں کو شہید کررہے ہیں اور میئر کراچی نے گوروں کی عمارت کی خوبصورتی بڑھانے کیلئے نماز کی جگہ شہید کردی ہے۔ ایک دکاندار شاہ سوار نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ 40 سال سے یہاں نماز ادا کررہے تھے۔ یہاں تراویح کا بھی اہتمام ہوتا تھا، لیکن اب یہ قدیم مصلیٰ ختم کردیا گیا ہے۔ نمازی محمد اقبال کہنا تھا کہ وہ صبح شام آکر مصلے میں جھاڑو لگاتے اور دریاں جھاڑتے تھے، جس سے انہیں روحانی تسکین ملتی تھی۔ دو روز قبل پولیس والوں نے انہیں کہا کہ بابا بھاگ جائو، ورنہ جیل بھیج دیئے جاؤ گے۔ نمازی محمد شریف نے بتایا کہ وہ گزشتہ 42 سال سے یہاں نماز پڑھ رہے تھے۔ اب انہیں کہا جارہا ہے کہ قریب واقع مسجد میں جاکر نماز پڑھو۔ ان کا کہنا تھا کہ سرکاری نقشے میں مسجد کی جگہ نہیں رکھی گئی ہے۔ دکاندار محمد ہارون نے بتایا کہ پولیس اور سٹی وارڈن کی جانب سے نمازیوں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ یہاں نماز ادا کرنے کی کوشش کی تو اٹھا کر لے جائیں گے۔ نمازی رحیم اور فاروق نے بتایا کہ دو روز قبل سٹی وارڈنز نے صفیں ہٹا کر فرش کو توڑ دیا تھا۔ مصلے کے قریب کے ایم سی کے نلکے کا کنکشن حوض میں لگا تھا، وہ حوض توڑ دیا گیا۔ جبکہ بجلی کا میٹر بھی ہٹا دیا گیا۔
٭٭٭٭٭