وجیہ احمد صدیقی
نیوزی لینڈ میں عیسائی دہشت گرد کی مساجد پر فائرنگ اور 50 سے زائد مسلمانوں کی شہادت پر مجموعی طور پر مسلم ممالک کے حکمران خاموش ہیں۔ صرف چار ممالک کے حکمرانوں نے اس سانحے پر اپنے شدید جذبات کا اظہار کیا ہے، جن میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان، سعودی عرب کے شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان، ترکی کے صدر رجب طیب اردگان اور ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم شامل ہیں۔ ان کے علاوہ کسی مسلمان ملک کے سربراہ کی جانب سے سخت ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ اردن، مصر، لبنان اور قطر کی وزارت خارجہ کے علاوہ انڈونیشیا کے وزیر خارجہ کے رسمی مذمتی بیانات سامنے آئے ہیں۔ جبکہ ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف اس سانحے پر او آئی سی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ جبکہ کویت، عمان اور متحدہ عرب امارات نے اعلامیے جاری کرکے نیوزی لینڈ میں مساجد پر حملوں کی مذمت کی اور نیوزی لینڈ کو اپنے تعاون کا یقین دلایا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے بھی رسمی بیان جاری کرنے پر اکتفا کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ نیوزی لینڈ کی مساجد پر حملہ انسانیت سوز جرم اور اسلام دشمنی ہے۔ او آئی سی کے سیکریٹری جنرل یوسف العثی نے کہا کہ اس وحشیانہ جرم سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو صدمہ پہنچا ہے۔ یہ نفرت، تعصب اور اسلام فوبیا کے خطرات کیخلاف ایک اور انتباہ ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حملہ آور کو سخت سزا دی جائے اور اس مجرمانہ حملے کی فوری تحقیقات کرائی جائے۔ نیوزی لینڈ کی حکومت اپنے ملک میں آباد مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرے۔
موتمر عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل راجہ محمد ظفر الحق کا کہنا ہے کہ نیوزی لینڈ میں ہونے والا سانحہ امریکی صدر ٹرمپ، اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی اسلام اور مسلم دشمن پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ان تینوں نے مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندانہ رویہ رکھا اور انہیں دہشت گرد قرار دے کر ان کی نسل کشی کرتے رہے۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو میں راجہ ظفر الحق نے کہا کہ ’’موتمر عالم اسلامی نے اس سانحے کی شدید مذمت کی ہے۔ اس وقت مسلم دنیا نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ بہت بڑا سانحہ ہے، جس میں شہادتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ اب تک 50 سے زائد لوگ شہید ہوچکے ہیں۔ ہمیں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے رویے سے اطمینان ہے کہ انہوں نے اپنی کوتاہی کا اعتراف کیا ہے‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ چند دن پہلے رومن کیتھولک چرچ کے روحانی پیشوا پاپائے روم پوپ فرانسس اور جامعہ الازہر قاہرہ کے شیخ ڈاکٹر احمد الطیب کے درمیان مذہبی رواداری کیلئے باہمی تعاون کی یادداشت پر دستخط ہوئے تھے، جس کو موتمر عالم اسلامی نے سراہا تھا۔ تاہم اس واقعے سے نظر آتا ہے کہ اس یادداشت کے کوئی اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ نیوزی لینڈ کے سانحے کے بعد وقت آگیا ہے کہ یہ طے کیا جائے کہ دہشت گردی کا تعلق اسلام سے جوڑنے والے اصل دہشت گرد ہیں یا وہ مسلمان جو فلسطین، کشمیر اور افغانستان میں اپنی بقا اور آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ راجہ ظفر الحق نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل میں صہیونی انتہا پسند، بھارت میں ہندو انتہا پسند، مغرب میں عیسائی انتہا پسند، برما میں بدھ انتہا پسند، کمیونسٹ ممالک میں ملحد انتہا پسند اور یورپ میں لبرل انتہا پسندوں کا نشانہ صرف اسلام اور مسلمان ہیں۔ یہ کہنا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، درست نہیں ہے۔ جب کوئی واقعہ کسی مسلم گروپ یا کسی مسلمان کے ہاتھوں پیش آتا ہے تو تمام مسلمانوں کو قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے۔ لیکن جب ہندو انتہا پسندوں کا ہجوم سمجھوتہ ایکسپریس میں سوار پاکستانی اور بھارتی مسلمانوں کو زندہ جلاتا ہے تو کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ انہیں ہندو دہشت گرد قرار دے یا اس ہندو تنظیم کو دہشت گرد قرار دلوا کر عالمی سطح پر اس کے خلاف پابندی لگوائے۔ لیکن اگر بھارتی حکومت پاکستان میں بیٹھے کسی شخص کو دہشت گرد کہے تو ساری دنیا اس کی ہمنوابن جاتی ہے اور خود حکومت پاکستان بھی اس کے خلاف ایکشن لے لیتی ہے۔ اسی طرح جب اسرائیل فلسطینیوں پر بم برساتا ہے، تو کوئی اسے دہشت گرد نہیں قرار دیتا۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے عالمی سطح پر کبھی دہشت گرد نہیں کہلاتے۔ اب وقت آگیا ہے کہ امت مسلمہ اس ایشو پر متحد ہوکر ایک موقف اختیار کرے اور مشترکہ حکمت عملی بنائے۔ راجہ ظفر الحق نے بتایا کہ موتمر عالم اسلامی اس کیلئے کوششیں کررہی ہے۔
دوسری جانب دفتر خارجہ کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پاکستان نے ابھی تک اس معاملے کو اسلامی کانفرنس میں اٹھانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ابھی حکومت کی ساری توجہ سانحے میں شہید ہونے والے پاکستانیوں کی تلاش پر ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ہفتے کو پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ سانحہ یورپ میں پھیلتے اسلامو فوبیا کا نتیجہ ہے اور یہ واقعہ یقیناً دہشت گردی ہے۔ واضح رہے کہ ترکی کے صدر طیب اردگان پہلے ہی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے مغرب میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا اور نسل پرستی کا شاخسانہ قرار دے چکے ہیں۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے نیوزی لینڈ کی مساجد میں نمازیوں پر حملے کو گھنائونا جرم قرار دیتے ہوئے جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے اعزہ، نیوزی لینڈ کی گورنر جنرل اور عوام سے ہمدردی و تعزیت کا اظہار کیا۔ شاہ سلمان نے نیوزی لینڈ کی گورنر جنرل پیٹسی ریڈی کے نام پیغام میں کہا کہ ’’ہمیں نیوزی لینڈ کی مساجد میں دہشت گردانہ حملے کی اطلاع سن کر دکھ ہوا۔ ہم اس گھنائونے مجرمانہ حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ یہ دہشت گردانہ حملہ تمام مذاہب، روایات اور بین الاقوامی دستاویزات کی رو سے قابل مذمت ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ جاں بحق ہونے والوں پر اپنا فضل و کرم کرے اور زخمیوں کو فوری شفا سے نوازے‘‘۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بھی نیوزی لینڈ کی گورنر جنرل کے نام تعزیتی پیغام ارسال کیا۔ اس سے قبل سعودی دفتر خارجہ نے اعلامیہ جاری کرکے کہا تھا کہ نیوزی لینڈ کی مساجد میں جمعہ کی نماز کے دوران فائرنگ کی سخت الفا ظ میں مذمت کرتے ہیں۔ سعودی عرب ہر طرح کی دہشت گردی کا مخالف ہے۔ دہشت گردی کا نہ کوئی مذہب ہے اور نہ ہی دیس۔ سعودی عرب تمام مذاہب کے احترام کو ضروری سمجھتا ہے۔
٭٭٭٭٭