شہید نعیم رشید بیٹے کے سرپرسہراسجانےوالے تھے

امت رپورٹ
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجد النور پر حملے کے دوران ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے نعیم رشید نمازیوں کی جان بچانے کیلئے عیسائی دہشت گرد پر جھپٹے تھے۔ وہ بچپن ہی سے انتہائی جرات مند اور لوگوں کی مدد کرنے والے تھے۔ نعیم رشید شہید کے شہید بیٹے طلحہ نعیم تعلیم مکمل کرچکے تھا اور والدین کا پروگرام تھا کہ مئی میں پاکستان آکر ان کی شادی کریں گے، جس کیلئے پاکستان میں موجود خاندان والے رشتہ بھی تلاش کررہے تھے۔ ایبٹ آباد میں نعیم رشید کے بھائی کے گھر میں لوگوں کاتانتا بندھ چکا ہے۔
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں مسجد کے اندر عیسائی دہشت گرد کے حملے کی وائرل وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک شخص حملہ آور کو روکتا ہے اور شدید زخمی ہونے کے باوجود حملہ آور کو روکنے کی کوشش ترک نہیں کرتا۔ وڈیو وائرل ہونے کے بعد پاکستان میں موجود کچھ لوگوں نے اس شخص کی شناخت نعیم رشید کے طور پر کی۔ نیوزی لینڈ میں موجود پاکستانی کمیونٹی کے رہنما بھی اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ اس حملے میں نعیم رشید اور ان کا بیٹا طلحہ نعیم شہید ہوچکے ہیں۔
ایبٹ آباد میں موجود ’’ن‘‘ لیگ کی سابق ممبر صوبائی اسمبلی آمنہ سردار نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وائرل ہونے والی وڈیو انہوں اور ان کے خاندان والوں نے دیکھی ہے۔ وڈیو میں انتہائی زخمی ہونے والے شخص نعیم رشید ہیں جو ان کا پھوپھی زاد بھائی تھے۔ نعیم رشید تین بھائی تھے ان کی کوئی بہن نہیں تھی جس کی وجہ سے نعیم رشید نے ان کو اپنی بہن بنایا ہوا تھا اور ان کا خیال سگے بھائیوں سے بڑھ کر رکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں نے اور میرے پورے خاندان نے کئی مرتبہ وڈیو دیکھی ہے اور وڈیو سے تصاویر بھی بنائی ہیں۔ ہر مرتبہ وڈیو اور تصاویر دیکھنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ لوگوں کی جانوں کو بچانے کیلئے اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے والا کوئی اور نہیں نعیم رشید ہی تھے۔‘‘ آمنہ سردار کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں وزارت خارجہ اور نیوزی لینڈ میں موجود پاکستانی سفارت خانے نے تصدیق کردی ہے کہ دونوں باپ بیٹا اب اس دنیا میں موجود نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نعیم رشید اپنے بچپن اور جوانی میں ماڈرن تھے مگر چند سال قبل ہی وہ دین کی طرف متوجہ ہوگئے تھے اور انہوں نے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا شروع کردیا تھا۔ وہ خود ہی نہیں بلکہ ان کے تینوں بیٹے جن میں طلحہ، جو اب اس دنیا میں نہیں رہے، مذہبی تھے۔ بچپن ہی سے وہ دوسروں کی مدد کرتے تھے۔ ہمیشہ ظلم و زیادتی کے خلاف ڈٹ جایا کرتے تھے۔ ان کی زندگی کے کئی ایسے واقعات ہیں جس میں انہوں نے کبھی کسی پر ظلم ہوتے دیکھا تو اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ نعیم رشید ایک بہادر، جرات مند، ہمدرد انسان تھے جو دوسروں کے کام آنا اور دوسروں کے لیئے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالنا معمولی کام سمجھتے تھے۔ آمنہ سردار کے مطابق نعیم رشید کے والد عبدالرشید لاہور کے رہائشی اور بٹ خاندان سے تعلق رکھتے تھے جبکہ پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھے۔ وہ کئی سال پہلے وفات پا گئے تھے۔ جبکہ نعیم رشید کی والدہ کا تعلق ہزارہ کے علاقے ہریپور سے ہے اور وہ ہزارہ کی نامور سماجی کارکن بدر رشید ہیں جوصوبہ خیبر پختون کے سابق مرحوم ڈی آئی جی ڈاکٹر وسیم فضل کی بہن ہیں۔ بدر رشید کو ان کی سماجی خدمات کی بنا پر پورے علاقے میں انتہائی عزت و احترام کے ساتھ جانا پہچانا جاتا ہے۔ نعیم رشید کا زیادہ بچپن اپنے والد کے ہمراہ قطر میں گزرا تھا جہاں پر ان کے والد انجینئر کی خدمات انجام دیتے رہے تھے بعد ازاں نعیم رشید کے والد نے ایبٹ آباد میں رہائش اختیار کی اور نعیم رشید نے 1985ء میں آرمی برن ہال سے سنیئر کیمرج کیا تھا۔ جس کے بعد وہ فنانس کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے فلپائن چلے گئے تھے۔ فنانس میں ماسٹر کرنے کے بعد وہ پاکستان میں مختلف بینکوں میں خدمات انجام دیتے رہے تھے۔ آمنہ کے مطابق نعیم رشید کی شادی بنوں کے ممتاز خاندان میں ہوئی تھی۔ ان کی اہلیہ سی اینڈ ڈبیلو کے سابق ایکسیئن عبدالقیوم کی صاحبزادی ہیں ۔ نو سال قبل نعیم رشید اپنے تینوں بچوں اور اہلیہ کے ہمراہ پی ایچ ڈی کرنے کے لیئے نیوزی لینڈ چلے گے تھے جہاں پر وہ استاد کی خدمات بھی انجام دے رہے تھے۔ آمنہ سردار کے مطابق طلحہ گیارہ سال کا تھا جب اپنے والد نعیم رشید کے ہمراہ نیوزی لینڈ چلا گیا تھا۔ نعیم رشید کی کوئی بیٹی نہیں تھی تینوں بیٹے ہی تھے۔ جبکہ طلحہ سب سے بڑا بیٹا تھا اور کوئی بہن نہ ہونے کی وجہ سے وہ گھر کے کاموں میں بھی اپنی والدہ کی بہت مدد کرتا تھا اور انتہائی مذہبی تھا۔ کچھ ہفتے قبل اس کی ملازمت ہوئی تھی اور اس خاندان نے مئی میں پاکستان آنا تھا۔ سب کی خواہش تھی کہ طلحہ کی شادی مئی میں کردی جائے اس حوالے سے اکثر اس کے ماں باپ ہمارے ساتھ بات کرتے تھے۔ دونوں بڑے بیٹے کی شادی کے حوالے سے بہت پرجوش تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم لوگ کچھ رشتے دیکھ کر رکھیں گے اور جب یہ لوگ پاکستان آئیں گے تو چٹ منگنی اور پٹ بیاہ کردیا جائے گا۔
نیوزی لینڈ میں مقیم ندیم خان جو نعیم رشید کے ہم زلف ہیں نے کرائسٹ چرج سے ’’امت‘‘ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ کئی لوگوں نے ان کو بتایا کہ حملے کے وقت نعیم رشید اپنے بیٹے کو چھوڑ کر حملہ آور کی طرف لپکے تھے۔ موقع پر موجود ایک شخص نے بتایا کہ اگر نعیم رشید اس حملہ آور کو نہ روکتے تو جانی نقصان اس سے زیادہ ہوسکتا تھا کیونکہ وہ بالکل مسجد کے درمیان میں پہچنے کی کوشش کررہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک اور شخص نے بتایا کہ نعیم رشید نے کئی گولیاں جو ہجوم کی طرف برسائی جارہی تھیں اپنی چھاتی پر لے لیں تھیں اگر یہ یہ گولیاں لوگوں پر برستی تو کئی لوگ ہلاک ہوجاتے۔
ممتاز سیاسی و سماجی رہنما سردار ذوق اختر جو نعیم رشید کے قریبی عزیز ہیں نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ جب نعیم رشید اپنے خاندان کے ہمراہ نیوزی لینڈ منتقل ہورہے تھے تو اس وقت انہوں نے مجھے بھی یہ مشورہ دیا تھا اور کہا تھا کہ میں بھی ان کے ہمراہ چلوں مگرمیں نے ان سے کہا کہ نہیں پہلے آپ لوگ جائیں پھر مجھے بلانا۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ دن قبل میری ان سے بات ہوئی تھی تو نعیم نے مجھے کہا تھا کہ وہ مئی میں اپنے خاندان سمیت پاکستان آئیں گے اور اس موقع پر اپنی یادوں کو تازہ کریں گے۔
لاہور کے ممتاز ماہر معالج اور نعیم رشید کے عزیز ڈاکٹر خورشید عالم نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ چند دن پہلے فون پر بات ہوئی تو نعیم رشید پاکستان آنے اور بیٹے کی شادی کے منصوبے بنا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری تو خواہش تھی کہ میتیں پاکستان لائی جائیں مگر نعیم کے بچے اور اہلیہ ان کی تدفین نیوزی لینڈ ہی میں کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment