تثلیث سے توحید تک

محترمہ خدیجہ فرزوئی کا تعلق انگلستان سے ہے۔ انہیں بھی حق تعالیٰ نے دولت اسلام سے نوازا ہے۔ تثلیث سے توحید کے اس مبارک سفر کے بارے میں میں ان کا کہنا ہے کہ…
’’بچپن میں میری مذہبی تربیت چرچ آف انگلستان کی زیر نگرانی ہوئی۔ مگر ہوش سنبھالا تو میرا ذہن اس سے بالکل مطمئن نہ ہوا۔ مجھے چرچ آف انگلینڈ کی تعلیمات میں قوت اور وقار کا فقدان نظر آیا، اس لئے میں نے اس چرچ سے علیحدگی اخیتار کرلی اور بیس سال کی عمر میں رومن کیتھولک بن گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میرے اعزہ اور احباب سخت برہم ہوئے اور ان کی ناراضگی بلکہ دشمنی نے مجھے کئی برس تک پریشان رکھا، لیکن چونکہ مجھے یقین ہو چکا تھا کہ صرف رومن کیتھولک ہی سچا مذہب ہے اور اسے خدا کی پشت پناہی حاصل ہے، اس لئے میں نے غیروں کی دشمنی یا اپنی پریشانی کی کوئی پروا نہ کی اور اپنے مؤقف پر قائم رہی۔
لیکن کچھ عرصے کے بعد مجھے شدت سے احساس ہوا کہ رومن کیتھولک کی وابستگی ایک قیمت چاہتی ہے اور وہ ہے سوچ، فکر اور اظہار پر پابندی۔ یعنی یہ اعتقاد کہ چرچ اور چرچ کی تعلیمات ہر قسم کے سقم سے مبریٰ ہیں اور ان پر اعتراض کفر کے مترادف ہے، خواہ وہ عقلی تقاضوں کے کس قدر ہی خلاف کیوں نہ ہوں۔ چنانچہ جب کبھی میری عقل کسی بات پر معترض ہوتی تو میں اپنے آپ کو سمجھاتی کہ فتور دراصل میری عقل میں ہے اور چرچ عقل سے بالا ہے۔
مثال کے طور پر یہ عقیدہ کہ چرچ میں جو روٹی بھی پادری صاحبان کھاتے ہیں، وہ پہلے ہی یسوع مسیح کے وجود میں بدل جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کی حیثیت بیک وقت خدا کی بھی ہوتی ہے اور انسان کی بھی، اگرچہ بظاہر اس کا احساس نہیں ہوتا۔ میں اکثر حیرت میں ڈوب جاتی کہ ایک پورا انسان روٹی میں کیسے سما سکتا ہے اور پھر حضرت مسیح بیک وقت مختلف مقامات پر مختلف روٹیوں میں کیسے حلول کر سکتے ہیں، جبکہ دنیا میں لاکھوں چرچ ہیں اور ہر چرچ میں بہت سی روٹیاں استعمال ہوتی ہیں۔ یہ بات بڑی بے جوڑ اور مضحکہ خیز لگتی کہ انسان اپنے گوشت اور خون سمیت ایک روٹی کی صورت اختیار کر جائے۔
ذہن جس دوسری بات پر خاصا پریشان ہوتا، وہ حضرت عیسیٰؑ کا مصلوب ہونا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کی قربانی کا واقعہ بار بار پیش آتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی سوالات تھے۔ جو ذہن میں پیدا ہوئے۔ تاہم میں نے اپنے آپ کو مجبور کئے رکھا کہ چرچ کے عقائد بلاشک وشبہ صحیح و درست ہیں، مگر عقل سے ماورا ہیں۔ ایسے خیالات سے بچنے کے لئے میں نے اپنے آپ پر ایک روحانی سا نشہ طاری کر لیا، یعنی زیادہ سے زیادہ عبادت میں مصروف رہتی تاکہ عقل کو مختلف شکوک کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہ ملے، نہ اس میں بغاوت کے کیڑے کلبلا سکیں۔ یہ الگ بات ہے کہ میں اپنے آپ کو راسخ العقیدہ کیتھولک نہیں سمجھتی تھی اور اس پر سخت پریشان تھی۔
مگر اپنے آپ کو مصنوعی طور پر مصروف رکھنے کا نشہ دیرپا ثابت نہ ہوا۔ میں کوشش کے باوجود اپنی ذات کو کنواری مریم، یسوع یا دیگر بزرگوں کی پرستش پر آمادہ نہ کرسکی۔ کیتھولک لوگ یسوع علیہ السلام کی والدہ کو خدا کی ملکہ اور تمام قوتوں کی ثالثہ قرار دیتے ہیں اور اس کی سفارش کو لازم قرار دیتے ہیں۔ میں نے ایک مرتبہ ایک پادری کو دیکھا، وہ اسکول کے بچوں کو بتا رہا تھا کہ ایک شخص اگرچہ سخت بدبخت اور گناہ گار تھا، لیکن صرف ایک نیکی نے اسے جہنم سے بچا لیا تھا اور وہ یہ کہ متذکرہ آدمی مریم کی پوجا بڑی باقاعدگی سے کرتا تھا۔ میں سوچتی رہ گئی کہ انجیل تو حضرت عیسیٰؑ کو نجات دہندہ قرار دیتی ہے، مگر پادری صاحب یہ اعزاز مریم کو بخش رہے ہیں، آخر دونوں باتوں میں مطابقت کیا ہے؟(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment