حضرت بابا فریدؒ کی ملاقات سے فیض یاب ہونے کے بعد الغ خانمیں ایک خاص تبدیلی آ گئی تھی۔ دوسرے وزیر و امیر اس کی اس بدلی ہوئی عادت کو بہت حیرت سے دیکھتے تھے مگر الغ خان اپنے امرائے سلطنت کے اس ردعمل سے بے نیاز محتاجوں اور ضرورت مندوں میں دولت تقسیم کرتا رہتا تھا۔ جب بھی کوئی حاجت مند اس کے سامنے آ کر دست سوال دراز کرتا اور الغ خان کی یہ خواہش ہوتی کہ کسی بہانے سے اسے ٹال دے تو اسی وقت حیرت انگیز طور پر اجودھن کا واقعہ یاد آ جاتا اور ایسا محسوس ہوتا جیسے حضرت بابا فریدؒ سرگوشی میں کہہ رہے ہوں: ’’شاہِ ایران فریدوں بادشاہ بن کر آسمان سے نہیں اترا تھا۔‘‘
حضرت بابا فریدؒ کے الفاظ کی بازگشت الغ خان کو پرجوش بنا دیتی اور پھر وہ جی کھول کر سرکاری خزانہ لٹاتا رہتا۔ غرض اس طرح حضرت بابا فریدؒ سے ملاقات کئے ہوئے تقریباً پچیس سال گزر گئے، مگر ابھی الغ خان کی خواہش اقتدار تکمیل تک نہیں پہنچی تھی۔ کبھی کبھی وہ شدید مایوس ہو جاتا اور مطلق العنان حکمرانی کے خواب بکھرنے لگتے، مگر یہ عجیب بات تھی کہ جب بھی الغ خان ناامیدی کا شکار ہوتا، حضرت بابا فریدؒ کے الفاظ اس کی سماعت میں گونجنے لگتے: ’’سخاوت و کرم سے کام لے۔ تو بھی فریدوں ہو جائے گا۔‘‘
ان الفاظ کے یاد آتے ہی الغ خان ایک بار پھر پرامید نظر آنے لگتا اور ضرورت مندوں کی جماعت سے نہایت فراخدلانہ سلوک کرتا۔
پھر وہ وقت معلوم آ پہنچا۔ 664ھ میں سلطان ناصر الدین محمود نے انتقال کیا اور متفقہ طور پر الغ خان کو ہندوستان کا فرماں روا منتخب کر لیا گیا۔ خواہش اقتدار ایک طویل انتظار کے بعد تکمیل کے مراحل تک پہنچی۔
الغ خان برسرعام کہا کرتا تھا کہ میرے اس منصب عظیم پر فائز ہونے میں حضرت بابا فریدؒ کی دعائوں کا بہت زیادہ دخل ہے۔ آپ مجھے فریدوں ہونے کی دعا دیتے تھے اور میں فریدوں ہو گیا۔ رسم تاج پوشی کے بعد الغ خان نے سلطان غیاث الدین بلبن کا لقب اختیار کیا اور نہایت جاہ و جلال کے ساتھ طویل و عریض ہندوستان پر حکومت کرنے لگا۔
خاتون بیگم نام کی ایک دوشیزہ سے حضرت بابا فریدؒ نے 634ھ میں شادی کی تھی، مگر وہ فرمانروائے ہندوستان بلبن کی صاحب زادی نہیں تھی۔ خاتون بیگم خاندان سادات سے تعلق رکھنے والی ایک پاکباز عورت تھیں۔ خدا نے انہیں یہ شرف بخشا تھا کہ ان کے بطن سے پیدا ہونے والی اولادیں نہ صرف زندہ رہیں بلکہ ان ہی کے ذریعے بابا فریدؒ کی نسل کو فروغ حاصل ہوا۔
٭٭٭٭٭