سرفروش

عباس ثاقب
جگدیش مراری نے اذیت ناک موت کے ڈر سے مجھے جوکچھ بتایا، وہ اتنا غیر متوقع اور دل دہلا دینے والا تھا کہ میں وقتی طور پر خود کو درپیش صورتِ حال سے بیگانہ ہوگیا۔ میری خوش قسمتی ہی تھی کہ میرا دشمن نہ صرف شدید گھائل ہونے کی وجہ سے نڈھال تھا۔ بلکہ ذہنی طور پر اپنی شکست تسلیم کر کے مزید مزاحمت کا ارادہ بھی ترک کرچکا تھا۔ ورنہ یہ مجھ پر جھپٹنے کا بہترین موقع تھا۔
مجھے اپنی غفلت کا اس وقت احساس ہوا جب جگدیش نے التجا آمیز لہجے میں مجھے مخاطب کیا۔ ’’میں نے سب کچھ بتا دیا۔ بھگوان کے لیے اپنے وعدے پورے کرو… مجھے ترنت اسپتال پہنچاؤ… زیادہ دیر ہوئی تو میں مر جائوں گا‘‘۔
میں خیالات سے چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کی نظروں میں چھپا دبا دبا سا خوف مجھ سے پوشیدہ نہیں تھا۔ میرے اندازے کے برخلاف اس کے جسم سے خون اتنی زیادہ مقدار اور سرعت سے خارج نہیں ہو رہا تھا کہ وہ علاج نہ ملنے پر خون نچڑ جانے کی وجہ سے ہلاک ہو جاتا۔ خصوصاً ران پر چادر بندھنے سے جریانِ خون تقریباً رک گیا تھا۔
میں نے اسے شرارتی نظروں سے دیکھا اور شوخ لہجے میں بولا۔ ’’مرنے سے بہت ڈر لگتا ہے کیا جگدیش جی؟ گینڈے جیسے جسم میں چڑیا جتنا دل رکھتے ہو۔ فکر نہ کرو۔ میں وعدہ خلافی کبھی نہیں کرتا۔ میں تمہیں جلد از جلد اسپتال پہنچانے کا بندوبست کرتا ہوں۔ لیکن صرف ایک مسئلہ ہے۔ تم کو پتا نہیں چلے گا کہ تمہیںکون، کب اسپتال لے کر گیا ہے!‘‘۔
اس نے حیرانی سے میرے چہرے کی طرف دیکھا۔ ’’میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا؟‘‘۔ اس کے لہجے میں درد کی دبی دبی جھلک موجود تھی۔
میں نے کہا۔ ’’اس میں سمجھ میں نہ آنے والی کون سی بات ہے؟ کسی لاش کو یہ سب کیسے معلوم ہو سکتا ہے؟‘‘۔
میری بات سمجھ میں آنے پر اس کے تاثرات تیزی سے بدلے۔ پھر خوف سے اس کی آنکھیں پھیل گئیں اور چہرہ سفید پڑ گیا۔ اس کے حلق سے آواز نکلنے میں خاصی دیر لگ گئی۔ اس نے ہکلاتے ہوئے کہا۔ ’’لل…لاش! تم نے تو وعدہ کیا تھا…‘‘۔
میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’میرا حافظہ کمزور نہیں ہے۔ سب اچھی طرح یاد ہے۔ فکر نہ کرو۔ میں وعدہ خلافی نہیں کروں گا‘‘۔
اس کے چہرے پر امید کی چمک دوبارہ نمودار ہوتے دیکھ کر میں نے سنجیدہ لہجے میں بات آگے بڑھائی۔ ’’لیکن ایک گھاگ پولیس کی افسر کی حیثیت سے تم بھی اچھی طرح جانتے ہو کہ تمہیں زندہ سلامت چھوڑ کر چلے جانا اپنے لیے موت کا پھندا خود تیار کرنے جیسی حماقت ہوگی…۔ اس لیے تمہیں مارنا میری مجبوری ہے…‘‘۔
میری بات پوری ہوتے ہوتے دہشت کی شدت سے اس کی آنکھیں حلقوں سے باہر ابلنے کے قریب ہوگئیں اور چہرے کی رنگت زرد پڑگئی۔ اس نے کچھ بولنا چاہا لیکن آواز حلق میں پھنس گئی۔ وہ بمشکل اتنا کہہ سکا۔ ’’پرنتو… تم نے…‘‘۔
میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن اپنے وعدے بھی پورے کروں گا…۔ میں نے کہا تھاکہ تم پرگولی چلاؤں گا اور نہ ہی خنجر آزماؤں گا… اور تمہیں اسپتال بھی بھجواؤں گا…۔ لیکن زندہ نہیں… مردہ حالت میں!‘‘۔
اس نے یہ سن کر چیخنے کی کوشش کی۔ لیکن اس کا منہ پوری طرح کھلنے سے پہلے ہی میں اس پر جھپٹا۔ اس سے چھینا ہوا بھاری بھرکم ریوالور اس دوران میرے دائیں ہاتھ میں منتقل ہو چکا تھا۔ جسے میں نے نال کی طرف سے مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ سنبھل کر اٹھنے کی کوشش کرتا۔ ریوالور کا دستہ ہتھوڑے کی طرح اس کی کنپٹی سے ٹکرایا۔ میں نے اس ضرب میں اپنی ساری طاقت منتقل کر دی تھی۔ لہٰذا نتیجہ بھی میری منشا کے عین مطابق نکلا۔ میرے کانوں نے ہڈی تڑخنے کی واضح آواز سنی اور اس کی کنپٹی ضرب کے مقام پر کچھ اندر دھنس گئی۔
اگروہ چیخا بھی تھا تو آواز حلق سے باہر نہ نکل سکی۔ وہ تیورا کر بائیں طرف گرا اور بس کی پچھلی اور اس سے اگلی سیٹ کے درمیانی خلا میں منہ کے بل ڈھیر ہوا اور اس کا بھاری بھرکم جسم تنگ جگہ پر پھنس گیا۔ میں نے اپنے وار کے کارگر ہونے کی تصدیق کے لیے جھک کر غور سے اس کی حالت کا جائزہ لیا۔ اس کا جسم دھیرے دھیرے جھٹکے کھا رہا تھا۔ پھر اس کے وجود پر لرزہ طاری ہوگیا اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ ساکت ہوگیا۔
میں نے موت کی تصدیق کے لیے ہاتھ بڑھا کر عجیب غیر فطری انداز میں کمر کی طرف مڑا ہوا اس کا بایاں بازو ٹٹولا۔ مجھے زندگی کی ہلکی سی رمق بھی محسوس نہیں ہوئی۔ مجھے نتیجے کا پہلے ہی اندازہ تھا۔ لہٰذا اس دوران میرا دماغ تیزی سے آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کر رہا تھا۔ مجھے اب جلد از جلد یہاں سے نکلنا تھا۔ لیکن اس سے پہلے میں اس کی جامہ تلاشی لینا چاہتا تھا۔ شاید اس کے پاس سے برآمد ہونے والی کسی چیز سے اس کے بارے میں مزید پتا چل جاتا۔
میں نے دونوں گنیں اپنے لباس میں اڑس لیں اور آگے بڑھ کر تیزی سے جگدیش کی لاش ٹٹولنے لگا۔ مجھے سب سے پہلے ایک پھولا ہوا پرس ملا۔ میں نے اس کا جائزہ لیا۔ اس میں سروس کارڈ ملا جس پر اس کا نام جگدیش مراری اور ولدیت اپدیش مراری درج تھا۔ عہدے کے اعتبار سے وہ سب انسپکٹر تھا۔ جائے پیدائش کے خانے میں بھاؤ نگر درج تھا۔ پرس میں تین چار سو روپے بھی موجود تھے۔ تاہم میں نے صرف آئی ڈی کارڈ نکال کر پرس واپس اس کی جیب میں ٹھونس دیا۔
مجھے اس کی ایک بغلی جیب سے ماچس کی ایک ڈبیا اور سگریٹ کا پیکٹ بھی ملا۔ حالانکہ میں نے تمام سفر کے دوران اسے تمباکو نوشی کرتے نہیں دیکھا تھا۔ فرائض منصبی کی پاسداری کے علاوہ سگریٹ نہ پینے کی ایک وجہ یہ بھی ہوگی کہ سکھوں کی موجودگی میں تمباکو نوشی کا شوق پورا کرنے کا نتیجہ ناخوش گوار بھی نکل سکتا تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment