نمائندہ امت
سانحہ کرائسٹ چرچ کے باوجود پی ایس ایل کی اختتامی تقریب میں میوزک کنسرٹ کے پروگرام کی وکلا برادری نے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور اسے شہید نمازیوں کے ورثا کے زخموں پر نمک پاشی قرار دیا ہے۔ وکلا رہنمائوں نے یہ سوال بھی کیا کہ اگر موجودہ حکومت کے اعلیٰ عہدیدار یا کرکٹ بورڈ کے کسی بڑے فیصلہ ساز کا قریبی عزیز خدانخواستہ اس طرح کے سانحے کا شکار ہوتا تو کیا اسی طرح موسیقی اور ڈھول باجوں کے ساتھ تقریب منائی جاتی۔ واضح رہے کہ پی ایس ایل کی اختتامی تقریب کا آغاز ابرارالحق کے بیہودہ گانے ’’نچ مجاجن نچ‘‘ سے ہوا۔ اس کے بعد آئمہ بیگ نے ’’ڈسکو دیوانے‘‘ اور ’’تیری میری ایسی دوستی‘‘ گایا۔ گلوکار و اداکار فواد خان نے ’’یہ دنیا ہل جل جائے‘‘ پر پرفارم کیا۔
تحفظ ناموس رسالت لائرز فورم کے چیئرمین رائو عبدالرحیم کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب سانحہ نیوزی لینڈ پر ساری دنیا کے مسلمان افسردہ ہیں، پی ایس ایل کے فائنل میچ سے پہلے سرکاری سرپرستی میں میوزک کنسرٹ کرنا انتہائی قابل مذمت ہے۔ رائو عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے ’’امت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہا جاتا ہے۔ اور موجودہ حکومت جو اسے ریاست مدینہ بنانے کی دعویدار ہے، اس کے دور حکومت میں موسیقی کا اہتمام جو اسلام میں قطعاً حرام ہے اور پھر اس سے آگے قدم بڑھاتے ہوئے میوزک کنسرٹ کا سرکاری سرپرستی میں انعقاد ہی اس کے دعوئوں کی نفی ہے۔ پھر خاص طور پر جب نیوزی لینڈ جیسا سانحہ جس میں پاکستانیوں سمیت پچاس مسلمان بے دردی سے مسجد کے اندر شہید کئے گئے، اس کے دو دن بعد اس طرح کا پروگرام انتہائی قابل مذمت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو علم ہی نہیں کہ اس طرح کے مواقع پر کس انداز اور طریقے سے پیش آیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں سانحہ ساہیوال ہوا تو وزیر اعلیٰ پنجاب مرنے والوں کے بچوں کے پاس پھول لے کر پہنچ گئے۔ ان کو نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم سے سبق لینا چاہئے۔ اس حکومت کے انداز و اطوار سب لوگ جانتے ہیں۔ شراب کی بوتل پر شہد کا لیبل لگا دینے سے بھی وہ شراب ہی رہتی ہے۔ گزشتہ حکومت نے پچھلے سال پی ایس ایل کے موقع پر لاہور کی کئی مساجد بند کرا دی تھیں۔ اس حکومت نے شہید نمازیوں کے سوئم والے دن ڈھول تماشے کی محفل سجا دی ہے‘‘۔
ہفتے والے روز اسلام آباد میں بڑی تعداد میں وکلا نے نیوزی لینڈ میں شہید ہونے والے افراد کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔ جس کی امامت اسلام آباد کونسل کے جنرل سیکریٹری راجہ یاسر شکیل جنجوعہ ایڈووکیٹ نے کی۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے راجہ یاسر شکیل ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’’اس سانحہ میں ہمارے مسلمان بھائی دوران نماز شہید کئے گئے، جن میں نصف درجن سے زائد پاکستانی بھی تھے۔ بحیثیت قوم اور مسلمان ہمیں سوگ کا اعلان کرنا چاہئے تھا، جو نہیں کیا گیا۔ اس واقعہ کے دو دن بعد پاکستان سپر لیگ کی اختتامی تقریب بالکل سادگی سے ہونی چاہئے تھی۔ لیکن میوزک کنسرٹ کا پروگرام کرنا انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے‘‘۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل طارق اسد ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’بد قسمتی سے ہمارے ملک سے اسلامی اور اخلاقی اقدار اور طور طریقے رخصت ہو رہے ہیں۔ دو دن قبل جس روز نیوزی لینڈ میں سانحہ رونما ہوا، اسی دن شام کو پی ایس ایل کا میچ تھا، جو پروگرام کے مطابق ہوا۔ میچ کے آغاز سے قبل دونوں ٹیموں نے نیوزی لینڈ کی مسجد میں شہید ہونے والوں کے لئے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی، جو غیر مسلموں کا طریقہ کار ہے۔ مرنے والے مسلمان تھے۔ خاموشی اختیار کرنے والے ننانوے فیصد مسلمان تھے۔ فاتحہ خوانی کیوں نہیں کی گئی۔ میوزک کنسرٹ اور ڈھول باجے بھی غیر مسلموں کا طریقہ ہے، جو اپنایا گیا۔ کیا اچھا نہ ہوتا اگر خاموشی کے بجائے فاتحہ خوانی کی جاتی۔ موسیقی کی بجائے اختتامی تقریب سادگی سے منعقد کی جاتی‘‘۔
سینئر وکیل وجہیہ اللہ خان نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے پی ایس ایل کی اختتامی تقریب میں موسیقی کے پروگرام کو نیوزی لینڈ مسجد میں شہید ہونے والے افراد کے ورثا کے زخموں پر نمک پاشی قرار دیا اور کہا کہ ’’مرنے والے ہمارے بھائی تھے، جن میں سے پاکستانی بھی تھی۔ حکومت کو ان کے ورثا کے جذبات کا خیال رکھنا چاہئے تھا‘‘۔
٭٭٭٭٭