عظمت علی رحمانی
نیوزی لینڈ میں شہید کئے گئے نمازیوں کے سوئم والے دن پی ایس ایل ایونٹ میں رقص و سرود کی محفل سجانے پر علمائے کرام نے سخت تنقید کی ہے۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں کسی بھی ناگہانی آفت یا دہشت گردی کے واقعے کے بعد وہاں تمام کھیل تماشوں کے پروگرام منسوخ کرکے ایک یا تین روز کا سوگ منایا جاتا ہے۔ تاہم مسلمانوں کے افضل ترین دن جمعہ کے موقع پر نیوزی لینڈ میں نمازیوں کے قتل عام کے باوجود پی ایس ایل میچز کا شیڈول منسوخ نہیں کیا گیا۔ حالانکہ نیوزی لینڈ میں جاری کرکٹ میچز کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ سانحہ نیوزی لینڈ میں اب تک 9 پاکستانی شہریوں کی شہادت کی تصدیق ہوچکی ہے۔
پی ایس ایل فائنل میں خرافات کے حوالے سے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین اور ممتاز عالم دین مفتی منیب الرحمان کا ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ’’اصولاً تو یہ پروگرام منسوخ ہونا چاہئے تھا۔ یا پھر اس کنسرٹ کے پروگرام کو دعائیہ تقریب میں بدلنا چاہئے تھا۔ خود نیوزی لینڈ نے اپنے یہاں میچز ملتوی کر دیئے ہیں۔ جبکہ ہمیں شہدا کے لواحقین کے دکھ میں شریک ہونا چاہئے تھا اور ایسا بھی کوئی عمل نہیں کرنا چاہئے تھا جس سے عنداللہ بھی مواخدہ ہوگا اور عوام بھی مطعون ٹھہرائے گی‘‘۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ترجمان مولانا عبدالقدوس محمدی کا کہنا تھا کہ ’’پی ایس ایل میں میوزک کا تڑکا لگایا گیا ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک اور اسلامی تعلیمات سمیت ہماری روایات و اقدار کے منافی ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو بے راہ روی کی جانب لے جانے کی سازش ہے۔ کھیلوں کی سرگرمی کو گناہ سے آلودہ کرنا افسوسناک عمل ہے۔ ہمارا ملک پہلے سے کھیلوں کے میدان میں پیچھے ہے اور میدانوں میں ویرانیاں چھائی ہوئی ہیں۔ اوپر سے ہم اس طرح کی حرکتیں کرکے اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔ ایسے وقت میں کہ جب نیوزی لینڈ میں 9 پاکستانی بھی شہید ہوئے ہیں، ایسا پروگرام قابل مذمت اور قابل نفرت ہے۔ ایسے کاموں سے ہمیشہ کیلئے اجتناب کیا جائے اور کھیل کی سرگرمیوں کو گناہوں سے آلودہ نہ کیا جائے‘‘۔
تنظیم المساجد اہلسنت پاکستان کے صدر مفتی محمد عابد مبارک کا کہنا تھا کہ ’’پی ایس ایل کی انتظامیہ نے میوزیکل کنسرٹ ختم نہیں کیا ،جو بدیانتی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں اس کی جگہ دعائیہ تقریب ہوتی اور عالمی دہشت گردوں کو میسج دیا جاتا کہ پاکستان اسلامی دنیا کے ساتھ کھڑا ہے اور یہ حملہ دین پر حملہ ہے۔ اس موقع پر ہم مسلم دنیا اور شہدا کے لواحقین کے ساتھ کھڑے ہوتے کہ ان کا دکھ ہمارا دکھ ہے۔ ہم پی ایس ایل انتظامیہ کے عمل کو حکومت کو دہرا معیار سمجھتے ہیں اور اس کی شدید مذمت کرتے ہیں‘‘۔
اسلامی یکجہتی کونسل کے رہنما قاری سجاد تنولی کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں یہ دیکھ کر دکھ ہوا کہ مغرب کی اذان ہو رہی تھی اور گانے بجانے چلتے رہے اور انہیں وزیر اعلیٰ سندھ بھی سنتے رہے۔ اگر ان کے گھروں میں سانحہ نیوزی لینڈ جیسی کوئی آزمائش آئی ہوتی تو کیا یہ اس طرح میوزیکل شو کراتے؟ ان کو چاہیئے تھا کہ اسلامی ملک کا تشخص برقرار رکھتے اور کم از کم دعائیہ تقریب ضرور منعقد کراتے‘‘۔
ہانگ کانگ کولون مسجد کے امام اور اسلامی مرکز کے کورآرڈینیٹر مفتی محمد شیعب کا کہنا تھا ’’ہم پاکستان سے دور بیٹھے ہیں۔ یہاں یہ تاثر ہے کہ پاکستان خالص اسلامی ریاست ہے۔ لیکن اذان مغرب کے وقت قومی رہنماؤں کا گانے کے سروں پر تھرکنا دیکھ کر افسوس ہوا۔ حتیٰ کہ وزیر اعلی سندھ بھی مخالف جماعت کے گلوکار کے گانوں پر تھرکتے دکھائی دے رہے تھے۔ اس دوران 30 ہزار سے زائد لوگ اسٹیڈیم میں یہ مناظر دیکھ رہے تھے کہ کھلم کھلا شعائر اللہ کا مذاق اڑایا گیا‘‘۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی رہنما علامہ حافظ اکرم طوفانی کا کہنا تھا کہ ’’شعائر اللہ کا مذاق اڑایا گیا ہے اس پر پی ایس ایل انتظامیہ کو عنداللہ توبہ استغفا رکرنا چاہئے اور تجدید ایمان کرنا چاہئے۔ لاکھوں لوگ دیکھ رہے تھے کہ اذان مغرب ہو رہی ہے، اس کے باوجود ناچنا گانا چلتا رہا۔ ادھر پاکستان کے 9 خاندانوں میں صف ماتم بچھی ہے مگر حکمران عیاشیوں میں مصروف ہیں۔ ترکی کا صدر شہدا کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھا رہا ہے۔ مگر ہمارے رہنما رقص و سرور کی محفلیں گرما رہے ہیں۔ ہم اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں‘‘۔
متحدہ مجلس عمل کے ترجمان اور جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما علامہ صاحبزادہ اویس نورانی کا کہنا تھا کہ ’’جب سے نئی حکومت بنی ہے، تب سے اسلامی تشخص ختم کرکے، پاکستان میں مغربی کلچر کو فروغ دیا جار ہا ہے۔ ہم اس کی بھر پور بھر پور مذمت کرتے ہیں‘‘۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر بھی صارفین کی جانب سے مغرب کی اذان کے دوران گانے بجائے اور اس پر وزیر اعلیٰ سندھ کے لطف اندوز ہونے پر تنقید کی جاتی رہی۔ سوشل میڈیا صارف سید عارف مصطفیٰ نے لکھا ہے کہ ’’ابھی ان شہیدوں کی قبروں کی مٹی بھی خشک نہیں ہوئی، ان کے اہل خانہ کی آنکھوں سے برتی برسات بھی نہیں تھمی کہ ہمارے مسلمان رہنما گانے بجانے کرا رہے ہیں اور صوبے کا ایڈمنسٹریٹر ان گانوں کی دھنوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔‘‘ عبدالرشید نامی صارف نے لکھا ہے کہ ’’کم از کم اذان مغرب کے وقت تو گانا روکا جاتا اور یوں شعائر اللہ کا مذاق نہ اڑایا جاتا‘‘۔
٭٭٭٭٭