تابعینؒ کے ایمان افروز واقعات

میدان جہاد میں محمد بن واسعؒ کی دعا:
مسلمانوں کا لشکر اپنے امیر کا حکم پا کر میدان میں اتر گیا، دونوں آمنے سامنے ہوئے، مسلمانوں نے جب دشمن فوج کی تعداد اور تیاری دیکھی تو کچھ گھبرائے، جرنیل حضرت قتیبہ بن مسلمؒ نے حالات کا جائزہ لیا اور لشکر میں پھیلے ہوئے خوف و ہراس کا اندازہ کیا تو جوانوں کو حوصلہ دلانے کے لئے لشکر میں تیزی سے چکر لگانا شروع کیا، ان کو تسلی دی، جہاد کی ترغیب دی، موت اور بزدلی سے ڈرایا کہ مسلمان بزدل نہیں ہوتا، موت کا ایک وقت مقرر ہے، اس سے پہلے موت نہیں آئے گی، پھر کیا ڈرنا اور یہ موت تو مبارک موت ہے، جو خوش نصیب لوگوں کو ملتی ہے۔
جہاں سے گزرتے، آپ کی ہمت اور بہادری کو دیکھ کر مجاہدین کے حوصلے بلند ہو جاتے۔ ایک جگہ رک کر جرنیل نے چاروں طرف نظر دوڑائی اور پوچھا:
’’محمد بن واسع ازدیؒ نظر نہیں آرہے، وہ کہاں چلے گئے؟‘‘
مجاہدین نے بتایا: ’’وہ لشکرکی دائیں جانب کھڑے ہیں۔‘‘
پوچھا: ’’وہ وہاں کیا کررہے ہیں۔‘‘
انہوں نے بتایا اپنے نیزے پر ٹیک لگائے نگاہیں اوپر اٹھائے آسمان کی طرف اٹھائے انگلی سے اشارہ کر رہے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے انگلی کے اشارے سے رب تعالیٰ دشمن کی تباہی اور لشکر اسلام کی فتح و کامیابی کی دعا کر رہے ہیں۔ مجاہدین نے پوچھا: کیا ہم انہیں بلا لائیں؟
امیر نے کہا: نہیں نہیں، وہیں رب تعالیٰ سے مدد مانگنے میں لگے رہنے دو۔
پھر فرمایا: ’’رب کائنات کی قسم! مجھے ان کی یہ انگلی جو رب تعالیٰ کی جانب اٹھی ہوئی ہے، ان ہزاروں قیمتی تلواروں سے زیادہ محبوب ہے، جو تجربہ کار، تیز طرار، جہاد کا جذبہ رکھنے والے نوجوانوں کے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی ہوں۔ انہیں اپنی حالت پر چھوڑ دو۔ دعا میں مشغول رہنے دو۔ ہم نے ان کو اکثر مستجاب الدعوات لوگوں میں پایا ہے، یعنی رب تعالیٰ ان کی دعائیں قبول کرتے ہیں۔‘‘
مسلمانوں کی فتح اور ایک قیدی کا قتل
دونوں لشکر آمنے سامنے آئے، وہ ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح ٹکرائے جیسے سمندر کی طوفانی موجیں آپس میں ٹکراتی ہیں۔
مجاہدین نے ڈٹ کر مقابلہ کیا، رب تعالیٰ نے ان کے دلوں پر سکون و اطمینان نازل کیا۔ یہ دن بھر دشمن پر تلوار بازی اور تیر اندازی کرتے رہے۔ یہ سلسلہ شام تک اسی جاری رہا۔ شام ہوتے ہی دشمنوں کے پاؤں اکھڑ گئے، رب تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے، مسلمان مجاہدین نے بہادری کے ساتھ ان کا پیچھا کیا، بہت سے کفار قتل ہوئے، بعضوں کو قیدی بنا دیا گیا اور بعضوں نے فدیہ (ٹیکس کی رقم) ادا کرکے صلح کا پیغام امیر کو بھیجا اور رب تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔
قیدیوں میں ایک ایسا شخص گرفتار ہوکر آیا، جس نے مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، وہ اپنی قوم کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا کرتا تھا، اس کی سازش مسلمانوں کے خلاف بہت زیادہ تھی، اس نے امیر جماعت سے کہا:
’’امیر لشکر! میں اپنا فدیہ ادا کر کے قید سے آزادی چاہتا ہوں۔‘‘
آپ نے پوچھا کیا فدیہ ادا کرو گے؟
اس نے کہا: ’’پانچ ہزار گز ملک چین کا بنا ہوا ریشم کا قیمتی کپڑا ادا کروں گا۔‘‘
جرنیل نے لشکر کے احباب حل و عقد سے پوچھا کہ تمہاری کیا رائے ہے؟
سب نے کہا: فدیہ وصول کر کے اسے چھوڑ دیا جائے، اس فتح و کامیابی کے بعد اس قسم کے برے لوگ مسلمانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے، اس کپڑے سے بیت المال میں ایک قیمتی چیز کا اضافہ ہوگا، جس سے مسلمانوں کو خاطر خواہ فائدہ پہنچے گا۔
جرنیل نے حضرت محمد بن واسع ازدیؒ سے رائے طلب کی۔
انہوں نے فرمایا: ’’مسلمان اپنے گھروں سے مال غنیمت اکٹھا کرنے کے لیے نہیں نکلے اور نہ ہی مال و دولت جمع کرنا ان کی زندگی کا مقصد ہے۔ وہ تو صرف رب کی رضا حاصل کرنے اور پوری زمین پر اس کا دین پھیلانے کے لیے نکلے ہیں۔ اسلام کے دشمنوں کو کمزور کرنے کے لیے نکلے ہیں۔ میری رائے میں یہ شخص کسی وقت بھی مسلمانوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔‘‘
جرنیل حضرت قتیبہ بن مسلمؒ نے یہ بات سن کر کہا:
’’خدا آپ کو جزائے خیر عطا کرے، خدا کی قسم! میں کسی ایسے شخص کو معاف نہیں کروں گا، جو کسی بھی مسلمان کو تکلیف پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہو، خواہ وہ پوری دنیا کا مال اپنے فدیہ میں ادا کرنے کے لیے تیار ہو۔‘‘
واقعی ہم اپنے گھروں سے مال اکٹھا کرنے کے لیے نہیں نکلے، ہمارا اصل کام رب کے دین کی سربلندی اور اسلامی کے دشمنوں کا خاتمہ ہے پھر جرنیل نے اس شریر و سخت ظالم کافر کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment