ایک مرتبہ حضرت جنید بغدادیؒ نے انسانی زندگی کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’جو انسان حق تعالیٰ سے بے خبر ہے، اس کی زندگی سانس کی موجودگی تک ہے۔ سانس ختم ہوئی اور زندگی بھی فنا ہوگئی۔ مگر جس شخص کی زندگی حق تعالیٰ کی معرفت پر ہے، وہ حیات طبعی سے حیات اصلی کی طرف رجوع کرتا ہے اور حقیقی زندگی یہی ہے۔‘‘
ایک اور موقع پر نہایت پر سوز لہجے میں فرمایا: ’’جو آنکھ حق تعالیٰ کی صفت کو عبرت سے نہ دیکھے، اس کا اندھا ہونا ہی بہتر ہے … اور جو زبان حق تعالیٰ کا ذکر نہ کرے، اس کا قوت گویائی سے محروم ہونا ہی اچھا ہے… اور وہ کان جو حق تعالیٰ کا کلام سننے کے منتظر نہ ہوں ان کا بہرا ہوجانا ہی مناسب ہے… اور جو جسم اس کی خدمت نہ کرے، اس کا مردہ ہونا ہی بہتر ہے۔‘‘
ابھی آپؒ کا وعظ جاری تھا کہ ایک سید صاحب حاضر خدمت ہوئے۔ ایران کے رہنے والے تھے اور ناصری کے نام سے مشہور تھے۔ سید صاحب حج کیلئے جا رہے تھے۔ گھر سے رخصت ہوتے وقت انہوں نے نیت کی تھی کہ بغداد پہنچ کر سب سے پہلے حضرت شیخ جنیدؒ کے دیدار کی سعادت حاصل کروں گا۔ اپنی اسی نیت کی تکمیل کے لئے سید صاحب حضرت شیخؒ کی خانقاہ میں حاضر ہوئے تھے۔
’’ کہاں کے رہنے والے ہو؟‘‘ سید صاحب کو دیکھ کر حضرت جنید بغدادیؒ نے پوچھا۔ سید ناصری نے عرض کیا ’’گیلان کا رہنے والا ہوں، مگر شیخ کے دیدار کی حسرت رکھتا ہوں۔‘‘
’’چلیں، آپ کی یہ خواہش تو پوری ہوگئی۔‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔ ’’مگر یہ تو بتائیں کہ میرے محترم مہمان کا کس خاندان سے تعلق ہے؟‘‘
سید ناصری نے عرض کیا ’’میں حضرت علیؓ کے فرزندوں کی اولاد سے ہوں۔‘‘
حضرت جنید بغدادی ؒ نے فرمایا: ’’سید صاحب! آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے دادا محترم بیک وقت دو تلواریں چلایا کرتے تھے؟‘‘
سید ناصری نے حیرت سے حضرت جنید بغدادیؒ کی طرف دیکھا۔ سید صاحب آپؒ کی بات کا مفہوم سمجھنے سے قاصر تھے۔
حضرت جنید بغدادیؒ نے اپنے مہمان کو حیران پا کر فرمایا: ’’امیر المومنین حضرت علیؓ ایک تلوار گردن کفار پر چلاتے تھے اور دوسری اپنے نفس پر۔ سید صاحب! آپ کونسی تلوار چلاتے ہیں؟‘‘
سید ناصری اس کلام کے متحمل نہ ہو سکے اور فرش پر گر کر تڑپنے لگے۔ ’’شیخ میں خدا کے سامنے کیا منہ لے کے جائوں گا؟ پہلے مجھے اس قابل تو بنا دیجئے کہ اپنے رب کے سامنے حاضر ہو سکوں۔‘‘ سید ناصری زارو قطار رو رہے تھے اور تڑپ رہے تھے۔ ’’شیخ! خدا کی طرف میری رہنمائی فرمائیے۔‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا: ’’تمہارا سینہ حق تعالیٰ کا خاص حرم ہے۔ جہاں تک ہو سکے، اس میں کسی نامحرم کو جگہ نہ دو۔‘‘
جیسے ہی حضرت جنید بغدادی ؒ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے، سید ناصری نے ایک چیخ ماری اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔
حضرت جنید بغدادیؒ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ ؒ کی مجلس و عظ کی عجیب شان تھی۔ تقریر کی اثر انگیزی کا یہ عالم تھا کہ حاضرین کی اکثریت مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگی تھی۔ بعض سامعین پر اس قدر وجد طاری ہوتا کہ اپنی جانوں سے گزر جاتے تھے اور جو ہوش میں رہتے تھے، ان کی آنکھوں سے آنسوئوں کے آبشار جاری ہو جاتے تھے۔
شکستہ دلوں، خستہ دلوں، محتاجوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں پر حضرت جنید بغدادیؒ کا آستانۂ کرم ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ اس کے برعکس آپؒ کی ذاتی محفلوں کا یہ حال تھا کہ وہاں اہل ذوق کے سوا کسی کا گزر ممکن نہیں تھا۔ ایک دن آپؒ کے کسی ہم مذاق دوست نے دعوت کی۔ حضرت جنید بغدادیؒ خوشی خوشی تشریف لے گئے۔ ابھی کھانا شروع نہیں ہوا تھا کہ ایک شخص مکان میں داخل ہوا۔ حضرت جنید بغدادیؒ اس شخص سے واقف تھے۔ وہ ایک کم علم اور بے ذوق انسان تھا۔ محفل میں آنے والا شخص ابھی بیٹھا بھی نہیں تھا کہ حضرت جنید بغدادیؒ نے اسے اشارے سے اپنے پاس بلایا اور اپنی چادر اتار کر دیتے ہوئے فرمایا:
’’اسے لے جا کر رہن رکھ دو اور جتنی رقم ملے اس کی شکر لے آئو۔‘‘
پھر جیسے ہی وہ شخص چادر لے کر گھر سے باہر نکلا، حضرت جنید بغدادیؒ اپنی جگہ سے اٹھے اور دروازہ بند کردیا۔ تمام دوست بڑی حیرت سے آپؒ کے اس عمل کو دیکھ رہے تھے۔ دروازہ بند کرنے کے بعد حضرت جنید بغدادیؒ نے با آواز بلند اس شخص کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’سنو میرے عزیز! یہ چادر میں نے تمہیں دے دی مگر خدا کے لئے آج کی رات ادھر کا رخ نہ کرنا۔‘‘
احباب نے حیران ہوکر اس کا سبب پوچھا تو حضرت جنید بغدادی ؒ نے فرمایا ’’ایک بے خبر اور بے ذوق انسان ہماری مجلس میں چلا آیا تھا۔ میں نے اپنی چادر دے کر اس سے فراغت حاصل کرلی اور آج رات کی صحبت کو غیروں سے بچا لیا۔‘‘
یہ واقعہ حضرت جنید بغدادی ؒ کی نفاست اور اعلیٰ ذوق کی عکاسی کرتا ہے ورنہ آپؒ کی تواضع اور انکسار کا تو یہ عالم تھا کہ آپؒ کے شاگرد حضرت شیخ ابو محمد جریریؒ حج کو تشریف لے گئے۔ پھر جب آپؒ حج ادا کرنے کے بعد واپس لوٹے اور بغدادی کی حدود میں داخل ہوئے تو اہل خانہ کے ساتھ عزیزوں اور دوستوں کو اپنا منتظر پایا۔ تمام لوگوں نے حضرت شیخ ابو محمد جریریؒ کا والہانہ استقبال کیا اور گھر چلنے کیلئے کہا۔ جواب میں حضرت شیخ ابو محمدؒ نے فرمایا:
’’جب تک میں ایک شخص کی زیارت نہ کرلوں اس وقت تک نہ میں گھر جائوں گا اور نہ کوئی دوسرا کام کروں گا۔‘‘
دوستوں اور رشتہ داروں نے پوچھا۔’’ابو محمد ! وہ شخص کون ہے؟‘‘
حضرت شیخ ابو محمد جریری ؒ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا۔’’کیا تم اس شخص کو نہیں جانتے؟ وہ مرد بزرگ میرے استاد گرامی کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے؟‘‘
اہل خانہ اور احباب نے گھر چلنے کیلئے بہت زور دیا مگر شیخ ابو محمد ؒ نے ان کی ایک نہ مانی اور طویل سفر کی تھکن کے باوجود حضرت شیخ ؒ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔
حضرت جنید بغدادی ؒ اپنے شاگرد کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور دعائوں سے سرفراز فرمایا۔
دوسرے دن شیخ ابو محمد جریری ؒ کے مکان پر دستک دی۔آپ ؒ باہر نکلے تو دیکھا کہ حضرت جنید بغدادی ؒ دروازے پر جلوہ افروز ہیں۔شیخ ابو محمد ؒ حیرت سے استاد گرامی کی طرف دیکھا اور نہایت ادب کے ساتھ عرض کیا۔
’’سیدی! آپ نے کیوں زحمت کی؟ میں اس لئے تو پہلے خود حاضر ہوگیا تھا کہ آپ زحمت سے بچ جائیں۔‘‘
جواب میں حضرت جنید بغدادی ؒ نے فرمایا۔
’’ابو محمد ! میرے گھر آنے میں سبقت کرنا تمہارا فعل تھا۔اس سے تمہاری شرافت نفس کا اظہار ہوتا ہے۔مگر میرا آنا اپنی جگہ ہے۔تمہارے حسن و اخلاق کا حق ادا کرنا مجھ پر واجب ہے۔اگر تم پہلے چلے آئے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تمہارا حق مجھ پر سے ساقط ہوگیا۔‘‘
اس واقعے سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت جنید بغدادی ؒ تواضع اور انکسار کے کس درجے پر فائز تھے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭