عباس ثاقب
اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اس طرح میں جگدیش کی لاش اسپتال پہنچانے کا وعدہ بھی پورا کر سکتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت تک لاش شاید ناقابل شناخت ہو چکی ہوتی۔ میں فوراً ہی حرکت میں آگیا۔ میں نے بس کے اگلے حصے میں موجود سیٹوں کی چھ سات نشستیں اکھاڑ کر فرش پر ڈھیر کر دیں۔ پھر میں نے خنجر کی تیز دھار سے ان کی گدیاں پھاڑ کر اچھی خاصی مقدار میں روئی نکال کر ڈھیر کے اوپر ڈالی اور ماچس سے اسے آگ لگا دی۔ پرانی روئی نے شعلوں کی صورت اختیارکرنے میں دیر نہیں لگائی۔ جلد ہی چوبی نشستوں نے بھی آگ پکڑ لی اور بھڑ بھڑ جلنے لگیں۔
میرے لیے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ جلد ہی قریبی سیٹیں بھی آگ کی لپیٹ میں آجائیں گی۔ اپنا مقصد پورا ہونے کا یقین کرلینے کے بعد میں بس سے اترا اور تیز قدموں سے اڈے کی طرف جانے والے راستے پر چل پڑا۔ موڑ پر پہنچ کر میں نے مڑکر دیکھا۔ آگ زور پکڑ چکی تھی اور دھویں کے مرغولے فضا میں بلند ہونے لگے تھے۔ میرا اصل مقصد بھی یہی تھا۔ میںکچھ ہی دیر میں پُرہجوم اڈے پر پہنچ چکا تھا۔ وہاں کسی کو اتنی فرصت نہیں تھی کہ میری آمد پر توجہ دیتا۔ البتہ مجھے یقین تھا کہ بس اڈے کی عمارتوں کے عقب سے بلند ہوتے دھویں کے بادل جلد ہی ان کی توجہ کا مرکز بن جائیں گے۔
میں نے وہاں سے روانہ ہونے کے لیے مناسب بس کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔ سامنے ہی ایک لگ بھگ نئی بس مجھے روانگی کے لیے بالکل تیار نظر آئی۔ ڈرائیور بار بار اسے آگے بڑھانے کا ناٹک کر رہا تھا۔ جبکہ کنڈیکٹر روکنے کے اشارے کے طور پر بس کی باڈی پر ہاتھ مارتے ہوئے زور زور سے آوازیں لگا رہا تھا۔ ’’چلو بھئی چندی گڑھ، چندی گڑھ… گڈی تیار اے …دوراہا، کھناتے سرہند والے وی آجاؤ… تین گھنٹے وچ چندی گڑھ… چھیتی آؤ… گڈی ٹُرن لگی جے… چندی گڑھ، چندی گڑھ…‘‘۔
میں دل میں ابھرتی خوشی کی لہر دباتے ہوئے جلدی سے آگے بڑھا اورکنڈیکٹر سے پوچھا ’’سیٹ ہے ناں؟‘‘۔
اس نے زور زور سے ہاں میں گردن ہلائی اور جوش بھرے لہجے میں کہا۔ ’’بالکل ہے جی۔ تُسی چھیتی بیٹھو… ٹیم بالکل نہیں ہے گا‘‘۔
میں بس میں سوار ہوا تو دیکھا وہاں ابھی کئی سیٹیں خالی تھیں اور ان کے بھرنے سے پہلے بس کا روانہ ہونا ذرا مشکل ہی تھا۔ لیکن میرے لیے اب کوئی متبادل صورت نہیں تھی۔ ویسے بھی یہ بس اس لیے مناسب ترین تھی کہ میں راستے میں عین منڈی گوبند گڑھ اتر سکتا تھا۔
خوش قسمتی سے کنڈیکٹر نے زیادہ صبر نہیں آزمایا اور پانچ منٹ بعد بس واقعی چل پڑی۔ میں نے کھڑکی کے باہر نظر ڈالی۔ آگ میرے اندازے سے زیادہ تیزی سے زور پکڑ گئی تھی۔ مجھے عمارتوں کے عقب سے گہرے کالے دھویں کے گھنے بادل فضا میں بلند ہوتے دکھائی دیئے۔ میں نے مطمئن ہوکر خود کو بس کے اندرونی ماحول کی طرف متوجہ کرلیا۔ وہاں موجود مسافروں کے حلیے اور شخصیتیں میرے لیے جانی پہچانی تھیں۔ ان میں سے کچھ آپس میں باتیں کر رہے تھے اور باقی خاموشی سے منزل پر پہنچنے کا انتظارکرتے ہوئے باہر گزرتے مناظر کا جائزہ لے رہے تھے۔
خاصی باریک بینی سے جائزہ لینے کے باوجود مجھے جگدیش مراری ٹائپ کا کوئی بندہ دکھائی نہیں دیا۔ باقی مسافروں کی طرف سے مطمئن ہونے کے بعد میں نے اپنے ساتھ والی سیٹ پر براجمان شخص کا جائزہ لیا۔ وہ خالص دیہاتی ٹائپ کا سکھ تھا۔ جسم پر کھدر کا چولا، سر پر ملگجی سی پگڑی۔ کھچڑی داڑھی اور مونچھوں کے بال آپس میں الجھے ہوئے تھے۔ اس نے ایک چھوٹی سی کرپان بغل میں لٹکا رکھی تھی۔ عمر پچپن ساٹھ سال کے قریب رہی ہوگی۔ اس نے میرے دیکھنے پر کوئی ردِ عمل نہیں دکھایا۔ حتیٰ کہ میری دوستانہ مسکراہٹ کے جواب میں مسکرایا بھی نہیں۔ میں نے بھی اس پر مزید توجہ نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ میں اس کی طرف سے مطمئن ہوگیا تھا۔
میں نے کنڈیکٹر کو منڈی گوبند گڑھ تک کرایا کاٹنے کو کہا تھا۔ جی ٹی روڈ پر حسبِ معمول ٹریفک کا خاصا ہجوم تھا۔ تاہم بس اچھی خاصی رفتار سے دوڑ رہی تھی۔ اس نے لگ بھگ چالیس منٹ میں دوراہا قصبہ پیچھے چھوڑ دیا۔ بوڑھا سردار اب اونگھ رہا تھا۔ میں نے بھی سامنے والی سیٹ کی پشت پر بازو جماکر ان پر سر رکھ دیا۔ کچھ ہی دیر میں مجھ پر غنودگی طاری ہوگئی۔ میری نیند ابھی گہری نہیں ہوئی تھی کہ کنڈیکٹر کی چیخ و پکار سے میری آنکھ کھل گئی۔ وہ کھنا قصبے اترنے والی سواریوں کو تیار ہونے کو کہہ رہا تھا۔ مجھے پتا تھا کہ میری منزل بھی اب بہت زیادہ دور نہیں۔ لہٰذا میں بھی تیار ہوگیا۔ منڈی گوبند گڑھ کے اڈے پر تین اور مسافر میرے ہمراہ اترے تھے۔ میں تانگے والوں کی دعوت نظر انداز کرتے ہوئے تیز قدموں سے اپنی منزل کی طرف چل پڑا۔
میں بے نیازی سے چلتا ہوا ناصر کے آڑھت خانے کے سامنے سے گزرا۔ اس نے یقیناً مجھے دیکھ لیا تھا۔ کیونکہ میں کچھ آگے جاکر واپس لوٹا تو وہ باہر نکل کر میرا انتظارکر رہا تھا۔ وہ گرم جوشی سے مجھ سے لپٹ گیا۔ میری خیریت پوچھنے کے بعد وہ مجھے آڑھت خانے کے اوپر بنے ہوئے اپنے کمرے میں لے گیا اور پانی پلانے کے بعد چند منٹ کی اجازت لے کر واپس چلا گیا۔ میں نے بستر کے سرہانے والی چھوٹی سی میز پر رکھی ایک کتاب اٹھائی اور وقت گزاری کے لیے سرسری مطالعہ کرنے لگا۔ وہ ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کا ناول ’’ابن الوقت‘‘ تھا۔ ناصر اچھا ادبی ذوق رکھتا تھا۔ وہ ناول میں کئی سال پہلے پڑھ چکا تھا اور اپنے بعض فنی نقائص کے باوجود مجھے اچھا لگا تھا اور اب بھی دلچسپ لگ رہا تھا۔ میں نے چند صفحات ہی پڑھے تھے کہ ناصر واپس آگیا اور مجھے گھر چلنے کو کہا۔
میں نے کہا۔ ’’ابھی ذرا بیٹھو یار۔ چلتے ہیں کچھ دیر میں۔ یہ بتاؤ ظہیر کے بارے میں کوئی اطلاع ہے؟‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭