احمد خلیل جازم
اندر کوٹ کی جامع مسجد کے حوالے سے ڈاکٹر جہانگیر کا کہنا ہے کہ ’’میں دہلی میں چاندنی چوک کے محلہ بلی ماراں میں سنہری مسجد دیکھ چکا ہوں۔ اس کے در و دیوار اور اس مسجد کے در و دیوار میں ایک خاص قسم کی مناسبت واضح دکھائی دیتی ہے۔ اس کی دیواریں بھی اسی طرح چوڑی ہیں اور مغلوں کی طرز تعمیر، جیسے کے ڈبل جھروکے (چراغ دان) جو اندر دیواروں میں بنائے گئے ہیں، وہ بھی ایک جیسے ہی ہیں۔ آپ مغلیہ طرز تعمیر دیکھ لیں۔ ان سب کا ڈیزائن کم و بیش ایک جیسا ہی ہوگا۔ پاکستان میں اسی طرز کی مساجد مکھڈ، کوٹ فتح خان اور واہ کینٹ میں اب بھی موجود ہیں۔ جن میں اس زمانے کے طرز تعمیر کے مطابق موٹی دیواریں، کاشی کاری اور پچی کاری کا نادر کام کیا گیا ہے۔ اسی طرح اس مسجد کے نیچے ایک تہہ خانہ بھی تھا جو اب بھی موجود ہے۔ لیکن اس میں داخلے کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک سرنگ تھی، جو ضلع اٹک جا نکلتی تھی۔ اور بعض لوگ اسے فقط تہہ خانہ گردانتے ہیں۔ اس سرنگ کے حوالے سے سینہ بہ سینہ کوئی خاص بات کبھی سننے میں نہیں آئی۔ البتہ تہہ خانہ اب بھی موجود ہے، جو صرف اسی قدیم مسجد کے ہال کے نیچے ہے۔ یہ بالکل ویسا ہی تہہ خانہ ہے، جیسے جہانگیر کا مقبرہ دیکھیں، اوپر مزار بنا ہوا ہے اور نیچے قبر ہے‘‘۔ اس موقع پر ہمیں جامع مسجد حافظانی بھیرہ کی یاد آگئی، جس کے نیچے سرنگ جامع مسجد بھیرہ تک جاتی تھی۔ یوں سرنگ یا تہہ خانے سے یہ بات تو واضح ہوتی ہے کہ یہ مغلیہ دور میں تعمیر ہوئی تھی۔ کب ہوئی تھی، اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ لگ بھگ چار سو برس تک تو اس کی تعمیر کے شواہد موجود ہیں۔
جامع مسجد اندر کوٹ کی تعمیر نو سے اندرونی ہال کی کاشی کاری ختم ہوگئی۔ ڈاکٹر جہانگیر جیسے لوگ جو چلتی پھرتی تاریخ ہیں، ان سے سوال کیا کہ آپ تو مسجد کے ہال میں ہوئی خطاطی اور مینا کاری کی اہمیت سے واقف تھے۔ پھر اس پر پینٹ کیوں ہونے دیا؟ تو ڈاکٹر جہانگیر نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا ’’میں نے بہت کوشش تھی کہ اصل ورثہ جیسی بھی حالت میں ہے، اسے ویسا ہی رہنے دیا جائے۔ لیکن افسوس میری بات کسی نے نہیں سنی۔ اس جانب اوقاف اور محکمہ آثار قدیمہ نے بھی توجہ نہیں دی۔ ورنہ شاید مسجد کی پچی کاری محفوظ رہتی۔ صرف یہ مسجد ہی نہیں، فتح جنگ میں کئی قدیم عمارات موجود ہیں، جو زمانے کی دست برد کا شکار ہو رہی ہیں۔ لیکن ان کی جانب توجہ دینے والا کوئی نہیں ہے۔ مثلاً یہاں اسی پانی والی گلی میں مسجد کے سامنے ’چاندی مل چوبارہ ‘ ہے۔ چاندی مل ولد منگل سین ایک ہندو کھتری تھا، جس کی یہ قدیم حویلی ہے۔ اس میں آج کل اسکول کھلاہوا ہے۔ ہندوئوں کی ایک اور قدیم ماڑی تھی، مختلف مندر تھے، جو سب کے سب رفتہ رفتہ ختم ہوگئے۔ یہ قدیم حویلی چونکہ اپنی مضبوطی کے لحاظ سے خاصی پائیدار ہے۔ اس لیے ابھی تک سلامت ہے۔ لیکن کب تک۔ اگر اس کی حفاظت نہ کی گئی تو یہ بھی ختم ہوجائے گی‘‘۔ پہلے دور میں عمارتیں اس قدر مضبوط بنائی جاتی تھیں۔ حالانکہ اس وقت نہ سریا ہوتا تھا اور نہ ہی سیمنٹ دستیاب تھا۔ اس مسجد میں کون سا مٹیریل استعمال ہوا ہے؟ تو اس بارے میں ڈاکٹر جہانگیر کا کہنا ہے کہ ’’اس مسجد کی دیواریں جو کم و بیش چار فٹ ہیں، ان میں بھی وہی پرانا مسالہ جسے ’راکی‘ کہتے ہیں، جس میں دال ماش، چونا، چیڑھ اور پسا ہوا سرخ پتھر وغیرہ شامل ہے۔ انہیں گرم کر کے دیواریں بنائی جاتی تھیں‘‘۔ جتنی بھی قدیم مساجد دیکھیں، ان کی بلندی دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ آیا، سریے اور سیمنٹ کے بغیر ماضی میں اتنی اونچی چھت یا گنبد کیسے کھڑے کر لیے جاتے تھے۔ اس حوالے سے معروف تاریخ دان اور محقق انجینئر مالک اشتر سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’’قدیم دور میں چھت کے لیے مختلف طریقے رائج تھے۔ سکھوں کی عمارت تو ڈوم کے اسٹائل پر کھڑی ہوتی تھی۔ اس کا وزن بالترتیب تقسیم ہوتا ہوا نیچے آتا ہے۔ یہ آرچ ٹائپ ڈوم ہوتا ہے۔ یہ آرچ لنٹر کا کام کرتی ہے۔ مساجد کی چھت بھی چونکہ گنبدوں والی ہوتی ہے، اس لیے اس کا وزن بھی دیواروں پر ہی آتا ہے۔ ان کی اوپر سے انٹر لاننگ ایسی ہوتی ہے کہ ایک کا وزن دوسرا پتھر اٹھاتا ہے اور دوسرے کا تیسرا۔ اسی طرح یہ ٹرانسمنٹ ہوتا ہے اور پھر وزن چاروں جانب تقسیم ہوکر دیواروں پر آجاتا ہے۔ دیواریں تو آپ کو معلوم ہے کہ کیسے بنائی جاتی ہیں۔ چونا ان میں بنیادی عنصر ہوتا ہے۔ یہ بائنڈنگ ایجنٹ ہوتا، جو سیمنٹ کا کام بھی کرتا تھا۔ ان سب کے ساتھ ساتھ مسالے میں کنجور (Tofa Stone) کا پتھر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ اسے بھی پیس کر ڈالا جاتا ہے۔ یہ فوسل اسٹون ہوتا ہے۔ اس میں فوسل پائے جاتے ہیں۔ یہ بھی بائنڈنگ کا کام کرتا ہے۔ کنجور کا پتھر عموماً آپ دیکھتے ہیں، قدیم قبروں پر لگا ہوتا ہے۔ یہ بھی لائم اسٹون کی ایک قسم ہے۔ جتنی بھی پرانی تعمیرات ہوتی تھیں، ان میں پیسٹنگ کنجور کے پتھر کی ہوتی تھی۔ جسے پیس کر مسالہ بنایا جاتا تھا۔ وہ اسے گرپ کر لیتا تھا۔ یعنی پیچھے لائم اسٹون ہوتا اور گرپ کنجور کے پتھر کی ہوتی تھی‘‘۔ مالک اشتر نے کنجور کا حوالہ دے کر بات بہت حد تک صاف کر دی تھی کہ اتنی اونچی چھت کیسے ٹھہر جاتی تھی۔ یعنی ان قدیم مساجد کی چھتیں ایک ترتیب سے رکھے پتھر یا پھر پتھروں میں پتھر اس طرح پھنسانے کا عمل ہے کہ ان کا وزن ترتیب وار عمارت کی دیواروں پر آتا ہے۔ چھت پر وزن نہیں ہوتا۔ کنجور کا پتھر یا ٹوفا اسٹون اگر گوگل کریں تو دیکھا جا سکتا ہے ، یہ سیاہی مائل پتھر ہوتا ہے، جس میں چھوٹے چھوٹے سوراخ بھی ہوتے ہیں اور یہ اکثر قدیم قبرو ں پر ایسے لگایا جاتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ آپس میں جڑ کر ایسے ہوجاتا ہے جیسے قبر پر سیمنٹ کر دیا گیا ہو۔
جامع مسجد اندر کوٹ کی تعمیر بھی اسی طرز پر کی گئی ہے۔ مسجد کے اندرونی ہال کے بیرونی دروازے کے دونوں جانب بھی چراغ رکھنے کے ڈبل جھروکے موجود ہیں اور اندرونی جانب بھی ایسے ہی چراغ دان اوپر تلے موجود ہیں۔ ان میں نیچے والا چراغ دان اوپر والے سے نسبتاً بڑا، اور طرز تعمیر میں بھی الگ دکھائی دیتا ہے۔ یعنی ایک جیسے چراغ دان نہیں ہیں، بلکہ ان کی تعمیر میںتھوڑی سی تبدیلی کرکے ان میں بھی ایک حسن رکھا گیا ہے۔ اسی طرح یہ چراغ دان اوپر تلے مسجد کی محراب کے دونوں اطراف بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ طرز تعمیر مغلوں کے ہاں ملتا ہے۔ دو چراغ دان اکثر مغل طرز تعمیر میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ مسجد کے دائیں اور بائیں دونوں جانب چھوٹی چھوٹی محرابیں موجود ہیں۔ ان دونوں محرابوں کے گرد بھی دو دو چراغ دان ہیں۔ ان میں سے دائیں جانب والی محراب کو کھول کر دوسرے جانب مسجد کو (extend) بڑھا دیا گیا۔ یہ ایک الگ نیا ہال ہے، جو بعد میں تعمیر ہوا، جہاں نمازی زیادہ ہونے پر اس جانب شفٹ کیے جاتے ہیں۔ مقامی لوگوں میں ایک بزرگ محمد جمیل کا کہنا ہے کہ ’’قدیم مسجد کا بیرونی دروازہ بھی اسی سمت کھلتا تھا، جو بعد ازاں بند کر دیا گیا ہے۔ جبکہ اسی دروازے کے ساتھ تہہ خانے کا راستہ بھی تھا۔ تہہ خانے کا ایک اور راستہ حالیہ بیرونی دروازے میں داخل ہوں تو بائیں جانب ہے، جو مسجد کے صحن کا نچلا حصہ ہے۔ وہاں اصل تہہ خانے والی سمت دیوار چن دی گئی ہے۔ جبکہ صحن کے نیچے جو ہال نما کمرہ بنا ہے، وہاں مسجد میں قائم مدرسے کے طالبعلم قیام پذیر ہیں‘‘۔ یہ طالبعلم آس پاس کے دیہات سے آئے ہوئے ہیں اور یہیں رہائش پذیر ہیں۔ اس وقت اس ہال نما تہہ خانے میں کوئی نہیں تھا۔ البتہ طالبعلموں کا سامان رکھا ہوا تھا۔ مسجد چونکہ مکانات میں گھری ہوئی ہے، اس لیے اس کا اوپر سے گنبد درست طور پر دکھائی نہیں دیتا۔ ہم نے گنبد دیکھنے کی کوشش کی تو ڈاکٹر جہانگیر نے اسی مسجد کے دائیں جانب چھوٹی کھڑکی کے ساتھ ایک انتہائی تنگ سے راستے کی جانب اشارہ کیا۔ اس میں ایک سیڑھی مسجد کی چھت تک جاتی دکھائی دی۔ لیکن یہ اتنی تنگ جگہ تھی کہ بمشکل ایک شخص اس میں سے اوپر جاسکتا تھا۔ اس پر مستزاد یہ سیڑھیاں زیادہ عمودی طرز پر تعمیر کی گئی تھیں، جس کی وجہ سے ان پر چڑھنا بہت مشکل تھا۔ بہرحال لشتم پشتم سیڑھیاں چڑھ کے مسجد کی چھت پر جا پہنچے۔ مسجد کا گنبد قدیم ہے۔ لیکن اس پر جو سیمنٹ سے پلستر کیا گیا ہے، وہ نیا ہے۔ مسجد کا ایک ہی گنبد ہے۔ اس کے علاوہ چھت ایسی بڑی دکھائی نہیں دیتی۔ صرف گنبد ہی گنبد ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر جہانگیر کا کہنا ہے کہ ’’ قدیم مسجد کے گنبد کے ساتھ چھت میں دو خانے بنائے گئے تھے، جو اب بند کر دیئے گئے ہیں‘‘۔ یہ خانے کس سلسلے میں تھے؟ یہ بڑی دلچسپ بات ہے، جو ڈاکٹر جہانگیر بتانے جارہے تھے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭