میگز ین رپورٹ
دنیا کے سب سے بڑے بزنس میگزین ’’فاربز‘‘ کی جانب سے بنائی گئی مستقبل کے بڑے کاروباری افراد کی فہرست میں نمایاں جگہ پانے والے پینتالیس سالہ بھارتی شہری پی سی مصطفیٰ کی داستان حیات حیرت انگیز ہی نہیں، کسی بھی فرد کیلئے روشن مثال بھی ہے۔ بھارتی صوبے کیرالا کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے غریب مسلمان گھرانے سے تعلق رکھنے والے مصطفیٰ نے ایک سڑک چھاپ لڑکے سے دس ہزار کروڑ کا برانڈ سمجھی جانے والی آئی ڈی فریش فوڈ کمپنی کا مالک بننے کا سفر محض چند سال میں مکمل کیا۔ آج اس کی شخصیت دنیا بھر کے بزنس اسکولز اور یونیورسٹیز میں بطور کیس اسٹڈی طلبہ کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ اس کی کمپنی جنوبی بھارت کی مشہور ترین روٹی، دوسہ اور من بھاتی غذا، اڈلی کی تیاری کیلئے تیار مخصوص گندھا ہوا آمیزہ (Batter) سیل بند پیکٹوں میں پورے بھارت میں سپلائی کرتی ہے۔ اب یہ کمپنی مزید درجنوں اقسام کی غذائی مصنوعات کی تیاری اور فروخت سے وابستہ ہے اور خلیجی ریاستوں میں بھی اس کی فیکٹریاں اور ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کا م کر رہا ہے۔
آئی ڈی فوڈ کے مالک پی سی مصطفیٰ کا اپنی داستان بیان کرتے ہوئے کہنا ہے ’’میرے والد قلی تھے۔ میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ میں اچھے اسکول میں تعلیم حاصل کر سکتا۔ میں نے چھٹی جماعت میں فیل ہونے پر تعلیم چھوڑنے کی ٹھان لی۔ لیکن میرے استاد نے میرے باپ کو قائل کرکے مجھے دوبارہ اسکول بھیجنے پر مجبور کردیا۔ اس کے بعد میں نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور ساتویں جماعت کے امتحان میں پورے اسکول میں اول پوزیشن حاصل کی۔ دسویں تک میں نے کسی نہ کسی طرح تعلیم تو حاصل کر لی، لیکن غربت نے ساتھ نہ چھوڑا۔ میں ہاسٹل میں رہنے لگا، جہاں رہائش تو مفت تھی لیکن کھانے کے پیسے لگتے تھے، لہٰذا اکثر فاقہ کرنا پڑتا۔ اس وقت مجھے چونکہ اکثر بھوک کا احساس بے چین کئے رکھتا تھا، لہٰذا بچپن سے ہی مجھے کھانے کی اہمیت کا اندازہ ہے‘‘۔
مصطفیٰ، کیرالا کے ویاناڈ ضلع کے گاؤں ’’چینا لوڈے‘‘ میں پیدا ہوا، جہاں بجلی تھی اور نہ کوئی سڑک۔ اسے پڑھنے کیلئے چھ کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرکے دوسرے گاؤں میں واقع اسکول جانا پڑتا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس نے دس سال کی عمر میں ہی ذاتی کاروبار کرنے کا ارادہ باندھ لیا تھا۔ مصطفیٰ کا کہنا ہے ’’چونکہ میرا خاندان میرے باپ کی معمولی آمدنی پر گزارا کرتا تھا، لہٰذا جیب خرچ پانا میرے لیے ایک خواب کی حیثیت رکھتا تھا۔ لہٰذا ایک سال گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے ایک رشتے کے چچا سے ایک سو روپے ادھار لے کر اپنے گاؤں میں مٹھائی کی ایک عارضی دکان کھول لی، جہاں میں مٹھائی کے علاوہ چاکلیٹ وغیرہ بھی فروخت کرتا تھا‘‘۔
مٹھائی کی اس چھوٹی سی دکان سے بھی مصطفی نے اتنی کمائی کرلی کہ وہ جیب خرچ کی فکر سے آزاد ہوگیا۔ وہ اسکول کے وقت کے بعد اور ہفتہ وار چھٹیوں کے دوران اپنے والد کا ہاتھ بٹاتا تھا۔ وہ ایک اوسط قابلیت والا طالب علم تھا، لہٰذا جب وہ چھٹی جماعت کے امتحان میں ناکام ہوا تو اس کے باپ نے اسکول چھڑاکر کام میں ساتھ لگانے کا ارادہ کرلیا تھا۔ تاہم مصطفیٰ کے استاد میتھیو نے اس کے باپ پر زور ڈالا کہ مصطفی کو ایک موقع اور دیا جائے۔ یہ درخواست قبول کرلی گئی۔ میتھیو سر نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے مصطفیٰ کو اسکول کے اوقات کے بعد علیحدہ پڑھانا شروع کر دیا۔ اس کے بعد تعلیم کے میدان میں مصطفیٰ کی کامیابیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس نے دسویں جماعت کے بعد کالی کٹ میں فاروق کالج میں داخلہ لے لیا اور بعد ازاں انجنیئرنگ کالج میں داخلے کے امتحان میں پوری ریاست میں تریسٹھویں پوزیشن حاصل کی اور اسے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں کمپیوٹر سائنس میں داخلہ مل گیا۔ انجنیئرنگ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مصطفیٰ نے کئی جگہ کام کیا۔ اس نے بنگلور میں ایک نئی شروع ہونے والی کمپنی میں چھ ہزار روپے تنخواہ سے کیریئر کا آغاز کیا۔ لیکن جب وہ وہاں سے دبئی کے سٹی بینک میں شفٹ ہوا تو اس کی سیلری ایک لاکھ روپے سے بھی تجاوز کرگئی۔ مصطفیٰ کا کہنا ہے ’’میں نے اپنے ایک دوست کے ذریعے پہلے مہینے کی تنخواہ ایک لاکھ تیس ہزار روپے اپنے باپ کو بھجوائی تو وہ حیران و پریشان ہوگیا۔ اسے لگا کہ میں کسی غلط دھندے میں پڑگیا ہوں۔ اس نے فوراً ڈاک خانے سے نمبر ملوا کر مجھے فون کیا۔ میں نے اسے بمشکل یقین دلایا اور کہا کہ وہ اس رقم سے اپنے قرضے چکائے‘‘۔ مصطفیٰ نے بہت جلد اپنے والدین کو گاؤں میں ایک گھر کا تحفہ بھی دیا اور اس کے باپ نے اس کی تینوں بہنوں کی شادی کردی۔ مصطفیٰ نے بھی 2000ء میں شادی کرلی۔ اب وہ تین بیٹوں کا باپ ہے۔
مصطفیٰ کے مطابق بھاری تنخواہ کے باوجود اسے اپنے گھر اور اہلخانہ کی یاد ستاتی تھی، لہٰذا بالآخر وہ گاؤں واپس لوٹ آیا۔ اس کے مطابق اس نے اپنے چار رشتے کے بھائیوں کے ساتھ مل کر اڈلی، دوسے کے پکنے کیلئے تیار بیٹر کی تیاری اور فروخت کے کاروبار کا منصوبہ بنایا اور انہوں نے مصطفیٰ کی طرف سے کی گئی پچیس ہزار روپے کی سرمایہ کاری سے پانچ سو پچاس فٹ رقبے کی ایک چھوٹی سی جگہ پر دو گرائنڈر، ایک مکسر اور ایک سیلنگ مشین کے ذریعے علاقے کے بیس اسٹوروں کو ایک ایک کلو بیٹر کے پیکٹ سپلائی کرنے سے کاروبار کا آغاز کیا، جو اب اربوں روپے کی انڈسٹری بن چکی ہے۔ اس کمپنی میں مصطفیٰ پچاس فیصد حصے کا مالک ہے، جبکہ باقی پچاس فیصد میں اس کے چاروں کزن حصے دار ہیں۔ اس کمپنی کا نام آئی ڈی دراصل اڈلی اور دوسا کے ابتدائی حروف ہیں۔
ابتدا میں اڈلی اور دوسہ کیلئے پسی ہوئی اشیا پلاسٹک کے بیگ میں فروخت کی جاتی تھیں اور انہیں محفوظ رکھنے کیلئے ربر بینڈ لگا دیا جاتا تھا۔ مصطفی جانتا تھا کہ غذائی اشیا کی تیاری کیلئے لاکھوں لوگ یہ پسی ہوئی اشیا خریدتے ہیں۔ بس یہیں سے ایک نظریہ نے مصطفیٰ کے ذہن میں جنم لیا۔ پسی ہوئی اشیا کی صنعت کیلئے ایک منصوبہ تیار کیا گیا۔ مصطفیٰ نے اپنے چار بھائیوں کے ساتھ ایک چھوٹا پائلٹ پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان اشیا کی تیاری کیلئے ایک جوڑی مشنیں لائی گئیں۔ اس طرح آئی ڈی فریش (Fresh ID) اور پیکجنگ کمپنی کا قیام عمل میں آیا۔
مصطفیٰ نے بتایا کہ یہ نظریہ بہت آسان تھا۔ وہ حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق بھارت کے گھروں کیلئے انتہائی نفاست سے پیک کی ہوئی اشیا فراہم کرنا چاہتا تھا۔ بنگلور کے مضافات میں چند ہفتوں کے اندر یہ چھوٹی سے کمپنی پھلنے پھولنے لگی اور ان کے نظریہ کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔ آئی ڈی فریش نے فوڈ کمپنی کے قیام کے ویژن کے ساتھ بڑی فیکٹری کا آغاز کیا اور غذائی اشیا کو محفوظ رکھنے کے کسی کیمیکل کو استعمال کئے بغیر ایسی اشیا تیار کی گئیں جن کو گھر پر ہی پکایا جا سکتا ہے۔ مصطفیٰ نے بتایا کہ انہوں نے اشیا کے معیار اور پیکیجنگ پر توجہ کو یقینی بنایا کیونکہ اس کی مارکٹ وسیع تر ہے۔ آئی ڈی فریش نے ڈسٹری بیوشن یعنی تقسیم کے طریقہ کار اور چینل کو بھی موثر بنایا۔ بنگلور میں ہی اس کے 65 ہزار سے زیادہ ریٹیل اسٹورز تھے، جن میں 12 ہزار اسٹورز میں ریفریجریشن کی سہولت تھی۔ وہ اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے تھے اور ان اشیا کو زیادہ سے زیادہ اسٹورز تک پہنچاسکتے تھے۔ کمپنی کی انتھک کوشش کے نتیجے میں اب کمپنی کی ٹیم ایک ہزار سے زائد ارکان پر مشتمل ہے۔ جس کی سات فیکٹریاں اور آٹھ دفاتر ہیں۔
کمپنی نے 2006ء میںاپنے کام کے آغاز کے پہلے ہی دن سے منافع کمانا شروع کردیا تھا، جس پر مصطفی نے مزید مشینیں خریدنے کیلئے اپنی کچھ جائداد بیچ کر چھ لاکھ روپے کی مزید سرمایہ کاری کی۔ اس کے ساتھ ہی ان کی فوڈ فیکٹری آٹھ سو فٹ رقبے کی نسبتاً بڑی جگہ منتقل ہوگئی۔ ان کی مصنوعات کی طلب میں اضافہ ہوا، تو مصطفیٰ نے 2008ء میںچالیس لاکھ روپے سے بنگلور کے صنعتی علاقے میں اڑھائی ہزار مربع فٹ کی جگہ خرید کر فیکٹری وہاں منتقل کردی۔ 2009ء میں اس نے دبئی کی کمائی سے خریدی گئی باقی ماندہ جائیداد بھی فروخت کرکے مزید تیس لاکھ روپے اس کاروبار میں لگا دیئے۔ آئندہ دوسال میں، یعنی 2010ء تک کمپنی نے یومیہ دو ہزار کلوگرام بیٹر تیار کرنا شروع کر دیا۔ ساتھ ہی فروخت کرنے والے اسٹورز کی تعداد تین سو تک پہنچ گئی۔ 2014ء میں آئی ڈی فریش فوڈ نے ہیلیون وینچرز پارٹنر سے پہلے مرحلے میں 35 کروڑ روپے فنڈ حاصل کرکے مزید مصنوعات کا اضافہ کرنے کیلئے کاروبار میں لگادیا۔ 2016ء تک آئی ڈی فریش فوڈ ملک بھر میں اور دبئی میں قائم ایک یونٹ سے یومیہ پچاس ہزار کلوگرام بیٹر تیار کر رہی تھی، جو دس لاکھ اڈلی تیار کرنے کیلئے کافی تھا۔ کمپنی نے 2015-16ء میں ایک ارب روپے کی فروخت کا سنگِ میل عبور کرلیا۔ جبکہ کمپنی 2019-20ء میں ساڑھے تین سے چار ارب روپے کی فروخت کی توقع رکھتی ہے۔ کمپنی کی تیار کردہ مصنوعات میں اڈلی دوسہ بیٹر، راگی اڈلی دوسہ بیٹر، چاول روا اڈلی بیٹر، وڑا بیٹر، مالا باری پراٹھا، گندم اور جو کا دوسہ، قدرتی پنیر اور دہی شامل ہیں۔
مصطفی، نوجوانوں کو کہتا ہے ’’یہ بالکل ضروری نہیں کہ آپ جو بھی کام کر رہے ہوں، اس میں کامیاب ہی ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے کئی کام کئے، جس میں ناکام رہا۔ مثلاً سب سے پہلے میں نے کریانہ اسٹور شروع کیا۔ اس کے بعد مہارتھ ڈاٹ کام کی بنیاد ڈالی اور بالآخر اڈلی دوسہ کے بیٹر کے دس پیکٹوں سے آئی ڈی فوڈ کا کاروبار شروع کیا جو الحمدللہ ایک لاکھ پیکٹ روزانہ سے بھی آگے پہنچ چکا ہے‘‘۔ تجارت کے فروغ میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دیتے ہوئے اس نے کہا ’’ہمیں اپنے پروڈکٹ کو بہتر ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنا چاہئے۔ جبکہ سرمایہ کیلئے ایکویٹی کا راستہ اختیار کرنا سود مند طریقہ ہے‘‘۔
آئی ڈی فریش نے بیٹر کے علاوہ مالابار پراٹھا اور چٹنی بھی مارکیٹ میں پیش کی اور یہ جنوبی ہند کے گھروں کا پسندیدہ آئٹم بن گیا۔ مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ اڈلی، دوسہ کیلئے بیٹر کی تیاری کمپنی کا مشہور اور پسندیدہ پراڈکٹ ہے، جس کے بعد مالابار پراٹھا اور چٹنی کو لوگ پسند کر رہے ہیں۔ مصطفی نے بتایا کہ بیٹر کو صبح 5 بجے سے پہلے تیار کیا جاتا ہے اور مہر بند پیکنگ کے بعد وینز میں بھر دیا جاتا ہے۔ اس طرح بنگلورکے تمام اسٹورز اور جن شہروں تک کمپنی کی رسائی ہے، وہاں اس کی سپلائی عمل میں لائی جاتی ہے۔ ہزاروں ریٹیل اسٹورز کمپنی کے پارٹنرز ہیں۔ اس طرح دن میں 2 بجے تک تمام علاقوں میں پراڈکٹ کی سپلائی مکمل کرلی جاتی ہے۔ کمپنی اب ایک ایسی سطح پر پہنچ گئی ہے، جہاں ان اسٹورز کی مانگ کا وہ تخمینہ کرسکتی ہے اور اسی کے مطابق اسٹاک تیار کیا جاتا ہے۔ آئی ڈی فریش نئے برانڈ کی ایک عظیم مثال ہے جس نے فوڈ انڈسٹری میں مضبوط اور مستحکم وینچر شروع کیا۔ بگ باسکٹ اورگروفرس وغیرہ جیسے گروسری ڈیلیوری پورٹلز کے ساتھ کمپنی کی شراکت داری ہے۔ یہ نئے چینلز کسٹمرز کو آرڈر کرنے میں کافی مددگار ثابت ہورہے ہیں۔ جہاں تک آئی ڈی فریش کی فروخت کا تعلق ہے، اس کی آن لائن فروخت مجموعی مارکیٹ کے اعتبار سے بہت کم ہے۔
غذائی اشیا کی فراہمی میں کئی نئی کمپنیاںمصروف ہیں۔ لیکن ڈسپلے اور تشہیر کیلئے بھاری فنڈنگ کے بعد مارکیٹنگ میں بڑی تبدیلی دیکھی جارہی ہے۔ مصطفیٰ نے بتایا کہ ریسٹورنٹس، انٹرنیٹ، فرسٹ کچن وغیرہ کے ڈیلیوری کے کئی ماڈلز ہیں۔ مارکیٹ وسیع ہے اور مارکیٹ میں کئی کمپنیاں سرگرم ہیں۔ لیکن کاروبار میں مستحکم ہونا ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ معلوم ہوتا ہے۔ آئی ڈی فریش کیلئے آگے کا راستہ صاف ہے۔ اشیا کی تیاری اور مختلف شہروں تک کاروبار کو وسعت دینے پر توجہ مرکوز ہے۔
٭٭٭٭٭