ڈیرہ مراد جمالی میں ایف سی کا سرچ آپریشن شروع

نجم الحسن عارف
ڈیرہ مراد جمالی کے قریب ٹرین دھماکے کے بعد ایف سی نے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔ جبکہ پولیس نے ریلوے ٹریک کے ساتھ موٹر سائیکلوں کے ذریعے گشت کا آغاز کر دیا ہے، جو تاحکم ثانی جاری رہے گا۔ پولیس ذرائع کے مطابق بلوچ لبریشن ٹائیگرز نام کی جس تنظیم نے میڈیا والوں کے ساتھ رابطہ کر کے جعفر ایکسپریس پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، یہ اصل تنظیم نہیں ہے۔ بلکہ دہشت گرد بلوچستان میں پسپا ہونے کے بعد نام بدل بدل کر کارروائی کی کوشش کرتے ہیں۔ کالعدم بی ایل اے اور کالعدم بی آر ایف نہ صرف اس طرح کی کاغذی تنظمیوں کے پیچھے ہیں، بلکہ بی ایل ایف اور بی آر ایف کو آرڈی نیشن کے تحت بھی جہاں موقع مل جائے کارروائی کی کوشش کرتی ہیں۔ دوسری جانب ڈی پی او نصیر آباد عرفان بشیر نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات کا عمل جاری ہے۔ تاہم پیر کی شام تک کوئی ایسی چیز سامنے نہیں آئی ہے جسے شیئر کیا جاسکے۔ انہوں نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ سی ٹی ڈی پولیس کے مطابق ریلوے ٹریک کے نیچے تقریباً دس کلو گرام بارودی مواد لگایا گیا تھا۔ بلاسٹ سے تقریباً تین سو فٹ کا ریل ٹریک متاثر ہوا تھا جسے مرمت کر کے ریل ٹریفک کیلئے کھول دیا گیا ہے۔ سی ٹی ڈی ذرائع کے مطابق دھماکہ ریموٹ سے کیا گیا تھا، جس سے تین بوگیاں مکمل طور پر الٹ گئیں جبکہ مجموعی طور پر پانچ بوگیاں ٹریک سے اتر گئیں۔ کوئٹہ سے ذرائع نے بتایا کہ اتوار کی شام کے بعد بلوچ لبریشن ٹائیگر نامی نئی تنظیم نے میڈیا ہائوسز کو فون کر کے مسافر ٹرین جعفر ایکسپریس پر حملے کی ذمے داری قبول کرلی ہے۔ نیز اسی تنظیم کے حوالے سے ان ذرائع کے مطابق سوشل میڈیا پر بھی اس طرح کی اطلاعات دی گئی ہیں۔
واضح رہے اس دھماکے کے نتیجے میں ڈیرہ اللہ یار کی رہائشی دو ماں بیٹیوں سمیت مجموعی طور پر چار شہری جاں بحق ہوئے۔ جبکہ 25 کے قریب زخمی ہوئے، جن میں 20 سے زائد کو اتوار کی شام معمولی مرہم پٹی کے بعد اسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔ جاں بحق ہونے والوں میں ضلع بہاولنگر کا رہائشی 22 سالہ طاہر محمود اور گوجرانوالہ کا رہائشی 20 سالہ شہزادہ ولد محمد اشرف بھی شامل ہیں۔ جبکہ ڈیرہ اللہ یار کی رہائشی 50 سالہ نور بانو اور ان کی بیٹی 22 سالہ سعدیہ بی بی جاں بحق ہوئیں۔ نور بانو کا شوہر گلاب خان ولد حضور بخش زخمی ہوگیا۔ علاوہ ازیں ریلوے ملازمین علی اصغر اور سید سلمان شاہ بھی زخمی ہوئے۔
ذرائع کے مطابق دھماکے سے زیادہ نقصان اس وجہ سے ہوا کہ ٹرین اسٹیشن سے نکل کر رفتار پکڑ چکی تھی کہ اسی دوران دھماکہ ہوگیا جس سے کئی بوگیاں الٹ کر ٹریک سے اتر گئیں۔ ’’امت‘‘ کو پولیس ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ریلوے ٹریک کیلئے غیر معمولی حفاظتی انتظامات میں کمی ہو چکی ہے۔ اس کا بہرحال دہشت گرد فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اس بارے میں ڈی آئی جی پولیس راؤ نصیر احمد ضیا نے ’’امت‘‘ کو ایک سوال پر بتایا کہ ریلوے ٹریک کی حفاظت ایف سی کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ جبکہ تحقیقات سی ٹی ڈی کررہی ہے۔ اس لئے جو ایف آئی آر پولیس نے درج کی تھی، وہ بھی سی ٹی ڈی کو منتقل کر دی گئی ہے۔ دریں اثنا ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ ریلوے پولیس کے اعلیٰ ذمہ دار اگلے دو تین دنوں میں بلوچستان پولیس کے متعلقہ حکام کے ساتھ اس ریل دھماکے کے حوالے سے ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور اور دو طرفہ تعاون کے امور پر بات چیت کیلئے میٹنگ طے کر چکے ہیں۔ جس کی دونوں طرف سے تیاری شروع کر دی گئی ہے۔ خیال رہے کہ جعفر ایکسپریس کو دہشت گردوں نے پہلے بھی کئی مرتبہ نشانہ بنایا ہے۔ خصوصاً سندھ سے جڑے بلوچستان کے علاقے میں جہاں بولان کا علاقہ شروع ہوتا ہے، یہ دہشت گرد جب ممکن کارروائیاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب کی بار جس دہشت گرد گروپ نے مبینہ طور پر اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے، اس نے مقامی میڈیا ہاؤسز کو فون کر کے دعوی کیا ہے کہ ریل گاڑی کو اس لئے بم سے اڑانے کی کوشش کی گئی کہ اس میں سیکورٹی اہلکار سوار تھے۔ تاہم جاں بحق افراد اور زخمیوں کی سرکاری فہرست میں اس امر کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے جاں بحق اور زخمی افراد میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ پولیس حکام کا بس اتنا کہنا ہے کہ کئی مشکوک افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ لیکن فی الحال ان کی تعداد شناخت ظاہر نہیں کی جاسکتی کیونکہ ابھی سرچ آپریشن بھی جاری ہے اور تحقیقات بھی۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment