احمدنجیب زادے
ڈچ پولیس نے ہالینڈ کے شہر یوٹکریکٹ میں ٹرام پر حملے کا الزام ایک ترک نوجوان پر لگاتے ہوئے شہر کو سیکورٹی حصار میں لے لیا ہے۔ دوسری جانب یورپ کی مختلف نیوز پورٹلز سے وابستہ غیر جانبدار تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرام حملے میں ڈچ انٹیلی جنس میں شامل نسل پرست عناصر بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔ کارروائی میں ترک نوجوان کو استعمال کرنے کا مقصد نہ صرف کرائسٹ چرچ حملوں کے بعد مذمتی ردعمل کو کائونٹر کرنا ہے، بلکہ ’’اسلاموفوبیا‘‘ کو ہوا دینا بھی ہو سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں نے واقعے کی ٹائمنگ پر بھی سوال اٹھایا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ جب یورپ بھر میں سیکورٹی ریڈ الرٹ ہے اور ٹرینوں، ٹرام ویز اور ہوائی اڈوں کی حفاظت پر اسپیشل کمانڈوز دستے تعینات ہیں، ایسے میں کوئی حملہ آور باآسانی کارروائی کر کے نکل جائے؟ ادھر ہالینڈ بھر میں خطرے کا الرٹ جاری کرتے ہوئے تمام مساجد کو بند کر دیا گیا ہے۔ ڈچ پولیس ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ صبح پونے گیارہ بجے کی جانے والی اندھا دھند فائرنگ سے خاتون سمیت تین افراد ہلاک اور سات زخمی ہوئے ہیں۔ ڈچ پولیس نے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ٹرام میں سوار ہونے والے ایک سینتیس سالہ ترک نوجوان، جس کا نام غوکمان تانیس ظاہر کیا ہے، کے بارے میں ان کو مطلع کریں۔ ڈچ اسپیشل فورسز نے واقعے کے چند گھنٹے بعد ایک ایسی عمارت کا گھیرائو بھی کرلیا جس کے بارے مطلع کیا گیا تھا کہ یہاں حملہ آور موجود ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ہالینڈ کی سرزمین پر یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا، جب آج بروز منگل (19 مارچ کو) صوبائی الیکشن منعقد ہو رہے ہیں۔ لیکن ٹرام حملے کے بعد تمام سیاسی پارٹیوں نے الیکشن کی مہم بند کردی ہے۔ جبکہ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں تمام صورت حال کو مد نظر رکھ کر کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ ایک عینی شاہد جمی ڈی کوستر نے ٹیلیگراف جریدے کو بتایا کہ اس نے حملہ آور کو تو نہیں دیکھا لیکن ایک زخمی عورت کو زمین پر پڑے دیکھا، جس کو کوئی فرد اسپتال پہنچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ واقعہ کے بعد ڈچ وزیراعظم نے ایمرجنسی کیبنٹ سیکورٹی میٹنگ کال کی ہے اور پورے ملک میں خطرے کا لیول بڑھا دیا گیا ہے۔ مصروف سڑکوں سمیت ریلوے، ٹرام اڈوں، ایئر پورٹس اور تفریحی مقامات کی سیکورٹی دو گنی کردی گئی ہے۔ ترک میڈیا کا کہنا ہے کہ ہالینڈ کی ٹرام میں ہونے والی فائرنگ کا کوئی ویڈیو ثبوت موجود نہیں ہے۔ لیکن اس بات پر حیرت ہے کہ واقعے کے ایک گھنٹے کے اندر اندر اس کا الزام ایک ترک نوجوان پر دھر دیا گیا۔ حالانکہ ٹرام کے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج میں صاف نظر آرہا ہے کہ ٹرام میں داخلے کے وقت ترک نوجوان کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار یا بندوق نہیں ہے۔ ترک میڈیا کے مطابق یہ ڈچ پولیس یا انٹیلی جنس کا ’’فالس فلیگ آپریشن‘‘ بھی ہوسکتا ہے جس کا مقصد یورپ میں مسلمانوں کو دہشت گرد ٹھیرانا اور سانحہ نیوزی لینڈ کے احساس کی شدت کو کم کرنا ہے۔ واضح رہے کہ ڈچ میڈیا کا کہنا ہے کہ حملے کا نشانہ بننے والے ٹرام وے اسٹیشن کی سیکورٹی ہمیشہ سخت ہوتی ہے اور سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے وہاں ہر قسم کی نقل و حرکت کی ٹریکنگ کی جاتی ہے۔ ہالینڈ کے ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اب تک یہ واضح نہیں کہ حملہ آور نے کس ہتھیار سے مسافروں پر فائرنگ کی اور یہ بات بھی جواب طلب ہے کہ حملہ آور ٹرام کے اندر تھا یا باہر؟ دوسری جانب واقعے کے چند گھنٹے بعد ڈچ پولیس کا کہنا تھا کہ انہوں نے مسلم اکثریتی علاقے اکتوبر پلین اسکوائر کے قریب ایک ایسی عمارت کا گھیرائو کیا ہے، جس میں ترک مسلمانوں کے کئی خاندان رہائش پذیر ہیں۔ ڈچ پولیس کا دعویٰ ہے کہ حملہ آور ایک سرخ کار میں فرار ہوا تھا اور اس نے کم از کم چار مقامات پر فائرنگ کی۔ یہ امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ حملہ آور ایک سے زیادہ ہوسکتے ہیں جنہوں نے دہشت پھیلانے کیلئے فائرنگ کی۔ ادھر ٹرام کے ڈرائیور نے تصدیق کی ہے کہ فائرنگ کے بعد ٹرام کے دروازے آٹومیٹک سسٹم کے تحت لاک ہوچکے تھے جس کے باعث ٹرام کے اندر سے کسی کا باہر نکلنا ناممکنات میں ہے۔ اس بات سے یہ یقین کیا جا سکتا ہے کہ فائرنگ کرنے والا فرد باہر تھا۔ جبکہ جس ترک نوجوان کو ملزم قرار دیا جارہا ہے، وہ ٹرام کے اندر تھا۔ الجزیرہ کے ڈچ نمائندے نے لکھا ہے کہ پولیس اور پراسیکیوٹرز اب تک صحیح صورتحال جاننے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ بالخصوص فارنسک ایکسپرٹس اور تفتیش کاروں نے تصدیق نہیں کی ہے کہ ٹرام کی فائرنگ میں ترک نوجوان ہی ملوث ہے یا کوئی اور اس کا ذمہ دار ہے؟
٭٭٭٭٭