علی مسعود اعظمی
نیوزی لینڈ کی حکومت نے سانحہ کرائسٹ چرچ کے تمام شہدا کے لواحقین کو شہریت دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں امیگریشن حکام کو ہدایت دی گئی ہے کہ شہدا کے لواحقین اور زخمیوں کو سٹیزن شپ دینے کا عمل ترجیحی بنیادوں پر کیا جائے۔ نیوزی لینڈ کے ایکٹنگ ہیڈ آف امیگریشن اسٹیومک گل نے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ تمام شہدا کے لواحقین اور زخمیوں کی امیگریشن کا عمل ترجیحی بنیاد پر مکمل کیا جائے گا اور اس کام کیلئے متعلقہ امیگریشن ڈپارٹمنٹ کو مطلع کرکے رہنما ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔ ادھر نیوزی ہیلتھ منسٹر نے بھی اعلان کیا ہے کہ تمام زخمیوں کا ہر قسم کا علاج سرکاری خرچ پر اس وقت تک جاری رکھا جائے گا جب تک وہ مکمل صحتیاب نہیں ہوجاتے۔ اس سلسلے میں کیوی ہیلتھ منسٹر ڈیوڈ کلارک نے کرائسٹ چرچ اسپتال کا دورہ کیا اور زخمیوں کی عیادت کرتے ہوئے اسپتال منتظمین کو بہترین علاج کی ہدایات دی ہیں۔ نیوزی لینڈ ہیرالڈ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ حکومت نے تجہیز و تکفین کے تمام مراحل آسان کرنے کیلئے مسلم کمیونٹی کو مدد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ کیوی حکام کا کہنا ہے کہ مساجد حملہ کیس کی جامع تحقیقات اور عدالتی کارروائی کی تکمیل کیلئے لواحقین اور زخمیوں کی نیوزی لینڈ میں موجودگی ضروری ہے، اس لئے ان کو شہریت دی جائے گی۔ ادھر نیوزی لینڈ کے مقامی باشندوں نے سانحہ کرائسٹ چرچ کے متاثرین کی امداد کیلئے عوامی فنڈ قائم کرکے عطیات مہم تیز کردی ہے۔ ایک مقامی تنظیم ’’وکٹم سپورٹ‘‘ سمیت ’’کیوی بینکرز ایسوسی ایشن‘‘ نے بھی بڑی مقدار میں عطیات جمع کرنے کا کام شروع کردیا ہے جس میں آخری اطلاعات ملنے تک 10 ملین نیوزی ڈالر جمع ہوگئے ہیں جو پاکستانی کرنسی میں 9 کروڑ 60 لاکھ روپے بنتے ہیں۔ تمام عطیات کو حکومتی سرپرستی حاصل ہے اور اس پر کوئی ٹیکس نہیں کاٹا جائے گا۔ یہ پوری رقم شہدا کے لواحقین اور زخمیوں میں تقسیم کی جائے گی۔ عالمی جریدے انکوئسٹر نے بتایا ہے کہ نیوزی لینڈ حکومت کا سانحہ متاثرین کیلئے شہریت کا فیصلہ امریکی صدر ٹرمپ کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ کیونکہ ٹرمپ، یورپ اور امریکا میں مسلمان پناہ گزینوں کی آمد کے مخالف ہیں۔ نیوزی لینڈ حکومت کا یہ اقدام ان نسل پرستوں کی بھی نفی ہے، جو مسلمانوں کی امریکا یا یورپ میں آمد کے خلاف ہیں۔ دوسری جانب ایک اور اہم قدم اٹھاتے ہوئے نیوزی لینڈ کے تجارتی اداروں نے فیس بک اور گوگل سے اپنے اشتہارات ہٹانے شروع کر دیئے ہیں اور کہا ہے کہ وہ ان اداروں میں اپنے اشتہارات ہرگز نہیں چلائیں گے، جہاں بے گناہوں کے قتل کی براہ راست نشریات دکھائی گئی ہیں۔ کیوی صحافی ڈیمین وینیوٹو نے بتایا ہے کہ معروف کیوی برانڈز اے ایس بی، لوٹو نیوزی لینڈ، برگر کنگ، اسپارک، ڈزنی اور نیسلے سمیت متعدد کمپنیو ں نے گوگل اور فیس بک کو اشتہار دینے سے معذرت کرلی ہے اور کہا ہے کہ جب تک فیس بک اور گوگل معافی طلب کرکے اس امر پر اظہار ندامت اور مستقبل میں ایسی لائیو اسٹریمنگ سے گریز کی پالیسی کا اعلان نہیں کرتے، تب تک ان کو اشتہار نہیں دیں گے۔ اس کے علاوہ تین بڑے بینکوں کیوی بینک، اے این زیڈ بینک اور بی این زیڈ بینک نے بھی گوگل اور فیس بک پر اپنے اشتہارات بند کردیئے ہیں۔ این زیڈ بینک نے فوری اعلان میں شہیدوں کے لواحقین کیلئے دس لاکھ نیوزی ڈالر کا اعلان کردیا ہے۔ جبکہ دیگر کیوی بینکوں نے بھی لواحقین کیلئے پانچ پانچ لاکھ ڈالر کے عطیات کا اعلان کیا ہے۔ ادھر کیوی امیگریشن منسٹر لین لیز گیلووے نے تمام لواحقین کو مطلع کردیا ہے کہ وہ جب تدفین سمیت دیگر معاملات سے فارغ ہوجائیں تو اپنے کیسز کے حوالے سے متعلقہ ڈپارٹمنٹ سے رابطہ کریں، تاکہ انہیں نیوزی لینڈ کی باقاعدہ شہریت دی جاسکے۔ کیوی جریدے دی اسٹف نے بتایا ہے کہ تمام شہدا کے لواحقین کو شہریت دینے کا مشورہ سابق امیگریشن منسٹر توریکی دیلامر نے دیا تھا۔ توریکی دیلامر اس وقت وزارت داخلہ میں سینئر ایڈوائزر کے طور پر کارگزار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آسٹریلوی قاتل نے نیوزی لینڈ کی مساجد پر حملوں کا ارتکاب اس لئے بھی کیا ہے کہ وہ نیوزی لینڈ جیسے پر امن ملک کو فساد کا گہوارہ بنانا چاہتا تھا۔ توریکی دیلامر نے کیوی میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ تمام لواحقین اور زخمیوں کو غیر مشروط طور پر شہریت دی جائے گی۔ نیوزی لینڈ حکومت اس مشکل گھڑی میں لواحقین اور زخمیوں کے ساتھ ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق شہدا کی تدفین کا سلسلہ پیر سے شروع کردیا گیا ہے جو جمعرات تک مکمل ہوجائے گا۔ ادھر نیوزی لینڈ کے شہریوں نے ایک غیر معمولی مہم میں اپنا حصہ بٹاتے ہوئے تمام بندوقوں کو واپس کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ حکومتی اقدامات کے تحت تمام آرمز ڈیلرز نے بھی آٹو میٹک اور سیمی آٹو میٹک بندوقوں کی فروخت بند کردی ہے۔ واضح رہے کہ ٹوئٹر پر کیوی شہریوں کی جانب سے خود کار اور نیم خود کار بندوقیں واپس کرنے کی مہم کو #NeverAgain (نیور اگین۔ یعنی آئندہ کبھی نہیں) کا نام دیا گیا ہے۔ اس مہم کے تحت اپنی سیمی آٹو میٹک رائفل واپس کرنے والی ایک مقامی خاتون برینا اسمتھ نے مقامی میڈیا سے گفتگو میں اظہار اطمینان کیا ہے کہ یہ فیصلہ بہت اچھا ہے۔
٭٭٭٭٭