سسٹر خولہ لکاتا 1961ء میں جاپان میں پیدا ہوئیں۔ وہ فرانسیسی لٹریچر کی اعلیٰ تعلیم کے لئے پیرس میں مقیم تھیں، جب خوبیٔ قسمت سے وہ 1990ء میں اسلام کی مقدس و متبرک چھتری تلے آگئیں اور پھر جب وہ عربی کی تعلیم کے لئے قاہرہ پہنچیں تو رب تعالیٰ نے اپنے مزید فضل سے وہاں ایک جاپانی نو مسلم ڈاکٹر حسان لکاتا سے ان کا ناتہ جوڑ دیا اور دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔
ذیل میں ان کی اپنی زبانی قبول اسلام کی سرگزشت ملاحظہ فرمائیے، جو انہوں نے Road To Islam کے عنوان سے قلم بند کی ہے:
’’اکثر جاپانیوں کی طرح قبول اسلام سے قبل میرا کوئی مذہب نہ تھا، حتیٰ کہ فرانسیسی لٹریچر کی اعلیٰ تعلیم کے لئے پیرس آگئی اور وہاں کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ یہاں سارتر، نٹشے اور کمیوس میرے محبوب فلسفی تھے اور یہ تینوں دہریت و لحاد کے پرچارک تھے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اس کے ساتھ ہی میں مذہبی مطالعے کی بھی خاصی شوقین تھی، کسی باطنی روحانی طلب کے تحت نہیں، بلکہ صداقت کی تلاش میں، میں مختلف مذاہب کے بارے میں بھی پڑھتی رہتی تھی۔ مجھے اس سے قطعاً کوئی دلچسپی نہ تھی کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا، البتہ یہ خواہش ضرور تھی کہ یہ مادی زندگی صاف ستھری اور ڈھنگ سے بسر ہو۔ تاہم اکثر خیال آتا کہ مذہب کے حوالے سے محنت اور جستجو کرتے ہوئے میں اپنا وقت ضائع کر رہی ہوں، لیکن محض تجسس کے تحت میں، اسلام کے سوا ہر مذہب کے بارے میں مطالعہ کرتی رہی، اسلام کو اس قابل بھی نہیں سمجھتی تھی کہ اس کے بارے میں سوچا بھی جائے، اس زمانے میں میرا تاثر یہ تھا کہ اسلام بت پرستی کا ایک مذہب ہے، جسے جاہل اور گنوار لوگ ہی اختیار کئے ہوئے ہیں (حق تعالیٰ مجھے معاف کرے) چنانچہ سب سے پہلے میں نے عیسائیوں سے دوستانہ تعلقات استوار کئے اور بائبل کا مطالعہ شروع کر دیا۔ گرجے بھی جاتی رہی۔ مدعا یہ تھا کہ کسی طرح خدا کے وجود کا احساس ہو، لیکن میری ساری محنت اکارت گئی۔ بائبل یا گرجے کی حاضری کے باوجود خدا کے وجود کا ہلکا سا یقین بھی دل میں جاگزیں نہ ہوا۔
کئی برسوں کی لاحاصل جستجو کے بعد میں بدھ مذہب کی جانب متوجہ ہوئی کہ شاید گیان دھیان اور یوگا کے ذریعے میں خدا کی ذات کو محسوس کرسکوں۔ بدھ مت میں بھی عیسائیت کی طرح مجھے بعض باتیں حقیقت کے قریب نظر آئیں، لیکن اس کے بعض پہلوؤں کو میں نہ سمجھ پائی، نہ قبول کر سکی۔ میرا وجدان اور ضمیر کہتا تھا کہ اگر خدا موجود ہے تو وہ سب کے لئے یکساں انداز ہونا چاہئے اور یہ کہ صداقت سادہ ہونی چاہئے، ہرکس و ناکس کے لئے قابل فہم اور نکھری ہوئی ہونی چاہئے۔ عیسائیت اور بدھ مت کے مطالعے کے دوران یہ بات میرے لئے بہت بڑا گنجلک بن گئی کہ خدا کا قرب حاصل کرنے کے لئے آخر روز مرہ کی عمومی زندگی کو تج دینا اور معاشرے سے کٹ جانا کیوں ضروری ہے؟
اس دور میں، میںذہنی اضطراب کی آخری منزل پر تھی اور حق کی تلاش کرتے کرتے گویا تھک ہار کے گر رہی تھی۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟ کہ خدا کو مجھ پر ترس آگیا اور میرا تعارف ایک الجزائری مسلمان سے ہوگیا۔ وہ فرانس ہی میں پیدا ہوا تھا اور وہیں پلا بڑھا تھا اور بے چارہ اتنا بے عمل تھا کہ اسے نماز پڑھنا نہیں آتی تھی اور اس کی عام زندگی پر اسلام کاکوئی پرتو بھی نہ تھا، لیکن زبانی کلامی وہ خدا کا بڑا ذکر کرتا تھا…
اس پر خیال آیا کہ مجھے اسلام کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرنی چاہئیں، کیا خبر یہیں سے گوہر مقصود حاصل ہو جائے، چنانچہ میں نے قرآن کا ایک فرانسیسی ترجمہ خرید لیا، لیکن میں اس کے دو صفحے بھی نہ پڑھ سکی۔ بہت ہی عجیب سا نامانوس اور بور لگا۔ میں نے اس مطالعہ کو چھوڑ دیا اور پیرس کی ایک مسجد میں چلی گئی تاکہ کسی سے مطلوبہ تعاون حاصل کر سکوں۔ یہ اتوار کا دن تھا اور میری خوش بختی کہ مسجد میں خواتین کے لئے ایک لیکچر ہو رہا تھا۔ وہاں جتنی خواتین تھیں سب نے غیر معمولی تپاک اور محبت سے میرا استقبال کیا اور یہ پہلا موقع تھا کہ میں با عمل مسلمان خواتین سے متعارف ہو رہی تھی اور یہ پہلا موقع تھا کہ میں ان لوگوں کے درمیان بہت سکون اور مسرت کے احساس سے آشنا ہو رہی تھی جب کہ اس کے برعکس میں نے عیسائی خواتین کے مجمع میں اپنے آپ کو اجنبی اور بیگانہ محسوس کیا۔
اس پہلے خوشگوار تجربے کے بعد میں ہر اتوار کو مسجد کے لیکچر میں شامل ہونے لگی۔ اسلام کے بارے میں مجھے ایک کتاب بھی دی گئی اور حالت یہ ہوئی کہ لیکچر کا ایک ایک لمحہ اور کتاب کا ایک ایک ورق گویا میرے لئے وحی الٰہی بن گیا… اور میں ذہنی و قلبی طور پر اطمینان اور سکون کی اس کیفیت سے دوچار ہوئی جس کا تجربہ اب تک نہیں ہوا تھا اور یہ دیکھ کر میں خوشی سے پاگل ہوگئی کہ میں نے صداقت کو دریافت کرلیا ہے۔ میں نے اپنے رب کو تلاش کر لیا… اور ہر سجدے کی حالت میں تو میں اس کے بہت قریب ہوجاتی تھی، بہت ہی قریب… کتنی خوش نصیب ہوں میں… گھٹا ٹوپ اندھیروں میں مجھے روشنی مل گئی، صراط مستقیم کا سراغ مل گیا۔ اس کے ایک ہی مہینے کے بعد میں نے کلمہ شہادت پڑھا اور مسلمان ہوگئی۔
اس کے جلد بعد ہی میں عربی زبان سیکھنے لگی اور پھر قرآن کے حسن سے مسحور ہوگئی۔ تب پتہ چلا کہ میںپہلی بار قرآن سے متاثر کیوں نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت میں نے قرآن نہیں پڑھا تھا، قرآن کا ترجمہ پڑھا تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭