خلاصۂ تفسیر
سو (مال بنی نضیر میں بھی تمہارا کوئی استحقاق ملکیت کا نہیں بلکہ) وہ (بھی) خدا کا حق ہے (یعنی وہ جس طرح اس میں حکم دے جیسا کہ اور سب چیزوں میں اس کا اسی طرح حق ہے اور تخصیص حصر کے لئے نہی) اور رسول کا (حق ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو اس مال میں مالکانہ تصرفات اپنی صوابدید سے کرنے کا اختیار دیدیا ہے) اور (آپؐ کے) قرابتداروں کا (حق ہے) اور یتیموں کا (حق ہے) اور غریبوں کا (حق ہے) اور مسافروں کا (حق ہے یعنی یہ سب حسب صوابدید رسولؐ اس مال کے مصرف ہیں اور ان میں بھی انحصار نہیں، رسول اقدسؐ جس کو اپنی رائے سے دینا چاہیں، وہ بھی اس میں شامل ہے اور مذکورہ اقسام کا خاص طور پر ذکر شاید اس لئے کیا گیا کہ ان کے بارے میں یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ جب شرکائے جہاد کا اس مال میں استحقاق نہیں تو یہ اقسام جو شریک جہاد بھی نہیں، ان کا بھی حق نہیں ہوگا، مگر آیت میں ان کا ذکر خاص اوصاف یتیم، غریب، مسافر وغیرہ کے ساتھ کرکے اشارہ کردیا کہ یہ لوگ اپنے ان اوصاف کی وجہ سے اس مال کے مصرف بااختیار نبی کریمؐ ہوسکتے ہیں، جہاد کی شرکت سے اس کا تعلق نہیں، پھر ان اوصاف میں ایک وصف ذوی القربیٰ یعنی رسول اکرمؐ کے قریبی رشتہ داروں کا بھی ہے، ان کو اس مال میں سے اس لئے دیا جاتا تھا کہ یہ سب رسول کریمؐ کے مددگار تھے، ہر مشکل کے وقت کام آتے تھے، یہ حصہ رسول کریمؐ کی وفات کے بعد منقطع ہوگیا، جیسا کہ سورۃ الانفال میں اس کا بیان آچکا ہے) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭