تلاوت کلام پاک سن کر رونا:
ایک روز حضرت عمر بن خطابؓ نے سیدنا عقبہؓ کو بلایا اور فرمایا کہ ’’عقبہ! مجھے کچھ قرآن سنائو۔‘‘ انہوں نے قرآن حکیم کی آیات پڑھنی شروع کیں، ایک تو ’’رب السمٰوات والارض‘‘ کا پر شوکت اور لرزہ براندام کر دینے والا کلام، دوسرے حضرت عقبہ بن عامرؓ کی پُر سوز اور دل میں اتر جانے والی آواز، حضرت عمرؓ بے حد متاثر ہوئے، ان کے اوپر بے اختیار گریہ طاری ہو گیا اور روتے روتے ان کی داڑھی آنسوئوں سے بھیگ گئی۔
قلمی نسخہ:
انتقال کے بعد حضرت عقبہ ابن عامرؓ اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک مصحف چھوڑ گئے۔ یہ مصحف مصر کی ایک جامع مسجد … جامع عقبہ ابن عامرؓ میں بہت زمانے تک موجود تھا، جس کے آخر میں کتبہ عقبۃ بن عامر الجہنی کے الفاظ درج تھے۔
حضرت عقبہ بن عامرؓ کا یہ مصحف دنیا میں پایا جانے والا قدیم تریم مصحف تھا، لیکن یہ بھی ہمارے دیگر قدیم اور بیش قیمت سرمایوں کی طرح زمانے کی دست برد سے نہ بچ سکا۔
عظیم فتح کی خوشخبری:
جہاں تک جولانگاہِ جہاد میں حضرت عقبہ بن عامرؓ کی سرگرمیوں اور کارناموں کا تعلق ہے، تو ہمارے لیے اتنا ہی جان لینا کافی ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر جہنیؓ غزوۂ احد اور اس کے بعد پیش آنے والے تمام غزوات میں رسول اکرمؐ کے ساتھ شریک رہے۔ وہ ان جانبازوں میں سے ایک تھے، جنہوں نے فتح دمشق کے موقع پر غیر معمولی شجاعت اور ہمت و مردانگی کا مظاہرہ کیا اور دشمن کے چھکے چھڑا دیئے اور حضرت ابو عبیدہؓ ابن جراح نے اس کے صلے میں ان کو اس اعزاز سے نوازا کہ فتح دمشق کی خوش خبری انہی کے ذریعے امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطابؓ کی خدمت میں مدینہ بھجوائی، وہ ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک آٹھ دن سات راتیں کہیں رکے بغیر تیز رفتاری کے ساتھ سفر کر کے وہاں پہنچے اور حضرت عمرؓ کو فتح عظیم کی خوش خبری سنائی۔
سپہ سالار لشکر:
آپؓ اس لشکر اسلام کے قائدین میں سے تھے جس نے مصر کو فتح کیا تھا اور اس کا بدلہ امیر المؤمنین حضرت معاویہؓ ابن ابی سفیان نے یہ دیا کہ انہیں وہاں کا گورنر مقرر کر دیا۔ وہ تین سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔ پھر حضرت معاویہؓ نے انہیں جہاد کے لیے بحر ابیض متوسط میں واقعہ جزیرہ روڈس (بحر متوسط میں واقع ایک جزیرہ قبرص کے مغربی اور ترکی کے جنوب مغرب سمت میں ہے) بھیج دیا۔
جہاد سے ان کے شوق و تعلق کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے جہاد سے متعلق بہت سی احادیث نبویہؐ کو اپنے سینے میں محفوظ کر لیا تھا اور ان کی روایت خاص طور پر مسلمانوں سے کرتے تھے۔ وہ بڑی جانفشانی اور شوق و دلچسپی کے ساتھتیر اندازی کی مشق کرتے اور اس میں غیر معمولی مہارت پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔
جب حضرت عقبہ بن عامر جہنیؓ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو اس وقت وہ مصر میں تھے، تو انہوں نے اپنے لڑکوںکو پاس بلا کر یہ نصیحت کی۔ میرے جگر گوشو! میں تم کو تین باتوں سے روکتا ہوں۔ ان کی سختی سے پابندی کرنا۔
تین نصیحتیں:
1۔ رسول اکرمؐ کی حدیث کبھی کسی غیر ثقہ سے قبول نہ کرنا۔
2۔ کبھی قرض نہ لینا۔ خواہ تم فقر و احتیاط کے اس درجے تک پہنچ جائو کہ تمہیںکمبل اور موٹے کپڑے پہننے پڑیں۔
3۔ اشعار کبھی نہ لکھنا کہ اس کی مشغولیت کے نتیجے میں تمہارے دل قرآن کریم سے غافل ہو جائیں۔
اور جب ان کی وفات ہو گئی تو انہیں جبل مقطم کے دامن میں دفن کیا گیا، پھر جب لوگ ان کے ترکے کی طرف متوجہ ہوئے تو معلوم ہوا کہ انہوں نے ستر سے اوپر کمانیں چھوڑی ہیں اور ہر کمان کے ساتھ ترکش اور تیر بھی ہیں اور ان کے متعلق ان کی یہ وصیت موجود تھی کہ انہیں راہ خدا میں وقف کر دیا جائے۔
رب تعالیٰ قاری، عالم اور غازی حضرت عقبہ بن عامر جہنیؓ کے چہرے کو شاداب رکھے اور انہیں اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے بہترین اجر سے نوازے۔ آمین۔
٭٭٭٭٭