نمائندہ امت
غریبوں مریضوں اور ضرورت مند افراد کو مفت ٹیکسی سروس دینے والے اکتیس سالہ عامر مہمند کی شدید خواہش ہے کہ کوئی شخص اس سے متاثر ہوکر اپنے علاقے، شہر، گاؤں کے لئے مفت ایمبولنس سروس شروع کرے، جس میں غریب اور ضرورت مند افراد اور مریض سفر کریں اور اسے دعائیں دیں اور اس کا مقصد بھی صرف دعائیں لینا ہی ہو۔ اسلام آباد میں عامر مہمند گزشتہ دو برس سے ٹیکسی چلا رہا ہے اور اس نے اپنی ساری زندگی اپنے والدین اور گھر والوں کی اجازت سے اس کام کے لئے وقف کر دی ہے۔ عامر کے مطابق وہ خود اس تجربے سے گزرا ہے کہ جب وہ اپنی بیمار بہن کو پیسے نہ ہونے کی وجہ سے کندھے پر اٹھا کر اسپتال لے کر گیا تھا۔ اسی وقت اس نے دعا کی تھی کہ اگر اللہ تعالی نے اسے گاڑی دی تو غریب افراد اور مریضوں کو مفت سفر کراؤں گا۔ عامر کہتے ہیں ’’اللہ تعالی نے 2017ء میں گاڑی دے دی۔ اب اس کام میں بہت سکون محسوس کرتا ہوں۔ روپے پیسے کا مجھے کبھی لالچ نہیں رہا۔ والدین اور بڑے بھائی طاہر جو گھر کی کفالت کر رہے ہیں، نے بھی مجھے یہ کام کرنے کی نہ صرف اجازت دے رکھی ہے، بلکہ ان کا کہنا ہے کہ گھر کی فکر چھوڑ کر تم یہ کام جاری رکھو۔ میرے دو بچوں، اہلیہ، والدین اور دیگر افراد خانہ کی ذمہ داری بھائی طاہر نبھا رہے ہیں‘‘۔
اکتیس سالہ عامر کا تعلق مہمند قبیلے سے ہے۔ نامساعد حالات کی وجہ سے وہ میٹرک بھی نہیں کر سکا۔ بھارہ کہو اسلام آباد میں اس کے خاندان کی رہائش تھی، جب بیمار بہن کو اسپتال لے جانے کے لئے بس کا کرایہ بھی اس کے والدین کے پاس نہیں تھا۔ اسی موقع پر عامر نے جو عہد کیا، وہ اب اس کو بخوبی نبھا رہا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ اس نے ایک رکشہ ڈرائیور سے متاثر ہوکر اپنی ذاتی تجربے کے نتیجے میں جو عہد کیا اور اسے پورا کر رہا ہے، کاش کوئی اس کے کام سے بھی متاثر ہوکر محض دعاؤں کے حصول کے لئے اپنے علاقے، گاؤں، شہر میں یہ کام شروع کرے۔ عامر مہمند نے اپنی ٹیکسی کے پیچھے گزشتہ دو برس سے بڑے کاغذ پر لکھ کر غریبوں اور مریضوں کو مفت سفر کرنے کی دعوت دی رکھی ہے۔ ٹیلی فون نمبر بھی لکھ دیا ہے۔ بعض ضرورت مند افراد کال کر کے عامر کو بلاتے ہیں اور مفت سفر کرتے ہیں۔ انسانیت کی اپنے انداز اور طریقے سے خدمت کرنے والے ٹیکسی ڈرائیور عامر مہمند نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔ ’’2012ء میں فیس بک پر میں نے ایک پوسٹ دیکھی۔ جس میں ایک رکشے پر لکھا تھا کہ جو غریب مریض کرائے کے پیسے نہ رکھتا ہو، میں اس کی خدمت کے لئے حاضر ہوں۔ اس سے پہلے چونکہ ہم اس ذاتی تجربے سے گزر چکے تھے، کہ جب اپنی بہن کو اسپتال لے جانے کے لئے ہمارے پاس کرایہ نہیں تھا۔ تو یہ پوست پڑھنے کے بعد میں نے عہد کیا کہ اگر مجھے اللہ نے گاڑی دی تو میں بھی غریبوں اور بے کس افراد اور مریضوں کو مفت سفر کراؤں گا۔ ڈرائیونگ میں نے دوستوں کی گاڑیوں میں 2004ء میں ہی سیکھ لی تھی۔ 2012ء میں ایک سال کے لئے دبئی بھی گیا۔ وہاں بھی ڈرائیونگ کی۔ اب میرے پاس پاکستان کے علاوہ دبئی کا بھی ڈرائیونگ لائسنس ہے۔ 2013ء میں پاکستان واپس آکر بھی ڈرائیونگ کرتا رہا۔ اللہ تعالی نے مہربانی کی۔ میں نے 2017ء میں ایک پرانی مہران گاڑی خرید لی۔ اپنے کئے گئے عہد کے مطابق بیمار اور غریب افراد کے لئے مفت سفر کا بڑا تشہیری کاغذ اسی وقت پیچھے اسکرین پر لگا دیا تھا۔ ابتدا میں بہت کم لوگ توجہ دے کر میری خدمت حاصل کرتے تھے۔ ہفتہ دس دن میں اور کبھی ایک ماہ بعد کوئی ایسی سواری ملتی تھی۔ لیکن اب پوزیشن یہ ہے کہ غریب لوگ مجھے ٹیلی فون کر کے بلاتے ہیں اور میں جاتا ہوں۔ بعض اوقات مشکل بھی ہوتی ہے۔ ایسے وقت میں میرے دوست ڈاکٹر عباد ملک میرے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔
مجھے کسی سے مدد یا امداد کی ضرورت نہیں۔ روپے پیسے کا لالچ نہیں۔ صرف لوگوں کی دعائیں درکار ہیں۔ یہی میرے والدین اور بڑے بھائی طاہر کا حکم ہے۔ جو پورے خاندان کی کفالت کر رہے ہیں۔ نوّے پچانوے فیصد ضرورت مند اور غریبوں کی سواریاں اٹھاتا ہوں‘‘۔ ایک سوال پر عامر نے کہا کہ ’’لوگ میرے جذبے کی تعریف بھی کرتے ہیں۔ کبھی کبھار میرے انکار کے باوجود کوئی سواری سو، پچاس روپے زائد بھی ادا کرتی ہے۔ بعض سواریاں میرے اس عمل کو نمود و نمائش قرار دے کر حوصلہ شکنی بھی کرتی ہیں۔ جس نے اپنی آنکھوں پر جو عینک لگا رکھی ہے، اسی نظر سے دیکھتا ہے۔ بعض اوقات بس اسٹاپس پر کھڑے غریب لوگوں کو خود ٹیکسی آفر کر کے بٹھاتا ہوں اور ان کی منزل پر چھوڑتا ہوں۔ اسلام آباد سے غریب خاندانوں کے مریض کو لے کر پشاور، صوابی اور مردان بھی گیا ہوں۔ اور مردان سے ایک مریض کو لے کر اسلام آباد میں بیگم جان اسپتال بھی پہنچایا تھا۔ یہی دعائیں میری ضرورت اور میری طلب ہیں۔ والدین کی دعاؤں سے یہ کام کر رہا ہوں۔ وہ بھی بہت مطمئن اور خوش ہیں۔ طاہر بھائی سے آج بھی ایک گھنٹہ موبائل پر بات ہوئی۔ انہوں نے کہا گہ گھر کی فکر نہ کرو۔ جو کام تم کر رہے ہو، اس میں ہم خوش ہیں‘‘۔ ایک اور سوال پر عامر کہنا تھا کہ ’’ٹیکسی پر اردو کے بجائے انگلش زبان میں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ بڑے لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے نواز رکھا ہے، وہ بھی یہ تحریر پڑھ کر غور کریں اور سوچیں کہ ایک ٹیکسی والا یہ کام کر رہا ہے تو انہوں نے غریبوں کے لئے کیا کام کیا ہے۔ کئی اخبارات اور ریڈیو نے میرے انٹرویو کئے۔ ایک ٹی وی چینل اور ایک موبائل کمپنی نے رابطہ کر کے اپنا برانڈ گاڑی پر لگانے اور اس کے عوض رقم دینے کی کوشش کی۔ لیکن میں نے صاف انکار کردیا، کہ چند ٹکوں کی خاطر اپنے بڑے مقصد اور دعائیں ضائع نہیں کرسکتا، اور نہ والدین اور گھر والوں کی ناراضگی مول لے سکتا ہوں‘‘۔
عامر مہمند کا کہنا ہے کہ ’’میری خواہش ہے کہ لوگ اس طرح کے کام کریں، جس سے غریبوں کا بھلا ہو۔ کاش مجھ سے متاثر ہوکر کوئی شخص اپنے علاقے، شہر کے لوگوں کے لئے مفت ایمبولنس اور ٹرانسپورٹ شروع کر دے اور وہ یہ کام محض اللہ کی رضا کے لئے کرے‘‘۔ عامر کے دو بچے ہیں۔ مشترکہ خاندانی نظام کے تحت اس کی بیوی بچے گاؤں میں رہتے ہیں۔ غریبوں، مریضوں کا یہ مددگار خود اسلام آباد کی ایک کچی آبادی کے ایک کمرے میں دیگر چار دوستوں کے ساتھ کرائے کے گھر میں رہائش پذیر ہے۔ اس کے بقول پانچواں سرہانا موجود نہ ہونے کی وجہ سے کوئی ایک دوست اور عموماً وہ خود رات کو سر کے نیچے جوتے رکھ کر سوتا ہے۔ فروری 2019ء میں اس نے اس پرانی گاڑی کی مرمت اور بحالی پر دو لاکھ تیس ہزار روپے لگا کر اپنے مسافروں کے لئے پُر کشش بنایا ہے۔
٭٭٭٭٭